بچھڑ کر میں ادھورا ہی رہا لیکن پڑھائی کی . ثقلین مشتاق

Urdu Ghazal
نہیں امید شاید پھر کبھی تجھ تک رسائی کی
بچھڑ کر میں ادھورا ہی رہا لیکن پڑھائی کی

مریضوں کی گھٹن، کمرے سے باہر لے چلو مجھ کو
مسیحا آ گئی اب کیا ضرورت ہے دوائی کی

ہمارا مسّلہ جگھڑے کی حد تک بڑ چکا تھا اور
رقیبوں نے پتا بھی کر لیا قیمت مٹھائی کی

تمھاری یاد کا شعلہ ابھی تک دل سے اٹھتا ہے
ابھی تک دل میں محشر ہے بپا جانم جدائی کی

میں بے تیغ و سپر کودا جب اس نے دی صدا مجھ کو
مگر وہ کیوں نہیں آیا جہاں میں نے لڑائی کی

کہا بھی تھا مرے کمرے میں ہرگز بھی نہیں آنا
مگر کمرے کو کیوں ترتیب دی، کس نے صفائی کی ؟

اگر وہ ہر ستم سہتا رہا سالوں تلک مشتاق
تو کیسے مر گیا سن کر خبر اپنی رہائی کی !

ثقلین مشتاق

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں