مسائل کا حل ! پروفیسر قیصر عباس

مسائل کا حل ! پروفیسر قیصر عباس
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے نیب ترامیم کے حوالے سے قائم پانچ رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے مگر اس مقدمے میں دل چسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب عمران خان اور معزز بینچ میں شامل ججز کا مکالمہ ہوا۔عمران خان نے کہا کہ” ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء ہے ۔”عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ “وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔”جس پر معزز بینچ نے کہا کہ “آپ اپنے دلائل موجودہ کیس تک ہی محدود رکھیں ۔”عمران خان نے مزید کہا کہ “دیکھنا ہوگا کہ نیب کو ایمان دار لوگ چلا رہے ہیں یا بدعنوان ؟۔جس کے جواب میں چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ “نیب سربراہ کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔”سابق وزیراعظم اعظم پاکستان عمران خان نے کہاکہ ” سپریم کورٹ کو نیب کا سربراہ مقرر کرنا چاہے ۔”جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا “آپ پارلیمان سے اس کی ترمیم کروا دیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔”عمران خان نے مزید کہا کہ “چئیرمین نیب کے لئے حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے تین تین نام جاتے ہیں اگر ان پر اتفاق نہ ہو تو اس کا فائدہ” تھرڈ امپائر” اٹھاتا ہے۔ “واضح رہے تھرڈ امپائر سے مراد وہی امپائر ہے جس کی انگلی اٹھنے کا انتظار عمران خان اپنے مشہور زمانہ دھرنے میں کرتے رہے تھے۔ مگر اس وقت کہ آئی بی کے سربراہ اور بعد میں نیب کے چئیرمین بننے والے ریٹائرڈ ڈی آئی جی پولیس آفتاب سلطان نے سارا کھیل بگاڑ دیا تھا۔اس پانچ رکنی بینچ کے ججز سے مخاطب ہوتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ” عوام کی نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں۔” جس کے جواب میں جسٹس مندوخیل نے کہا کہ” اگر ہم بھی ناکام ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ جسٹس مندوخیل نے مزید کہا” اگر ملک کو کچھ ہوا تو اس کے سیاستدان ذمہ دار ہونگے جج نہیں۔”پارلیمان کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس دئے کہ” میں پارلیمان کا کوئی مانیٹر نہیں ہوں لیکن مجھے صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا پارلیمان نے نیب میں ترامیم کرکے کوئی غیر آئینی کام کیا ہے ؟۔اگرچہ یہ بینچ نیب ترامیم کے حوالےسے کیس کی سماعت کر رہا تھا اس کیس کی سماعت کے دوران معزز ججز اور عمران خان کے درمیان مکالمے نقل کئے گئے ہیں لیکن ان مکالموں میں ایک بات واضح ہے کہ ہمارے جج صاحبان بھی کسی طرح کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں اور ملک جس ڈگر پر چل رہا ہے ان کے نزدیک اس کی ساری ذمہ داری سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے ۔یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ مسائل کا حل صرف پارلیمان کے پاس ہی ہونا چاہئے مگر جن آمروں نے پارلیمان کو بطور “ربڑ سٹیمپ” استعمال کیا ان آمروں کے اقتدار کو کندھا بھی معزز عدلیہ کے ان جج صاحبان نے ہی فراہم کیا جن کا فرض تھا کہ وہ آمروں کی حکم کو” غیر آئینی اقدام” قرار دیتے ہوئے ان کو تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیتے۔لیکن سوال یہ ہے کہ جسٹس ملک منیر سے لے کر جسٹس ارشاد حسن خان اور پھر جسٹس عبد الحمید ڈوگر تک عدلیہ کا دامن بھی” غیر آئینی اقدامات “کے حوالے سے داغ دار ہے۔عدلیہ کی قبا پر بھی ایسے داغ لگے ہوئے ہیں جن کو دھونا کسی کے بس کا کام نہیں ان داغوں کو صرف اسی صورت دھویا جاسکتا ہے کہ آئین پر عمل درآمد کروایا جائے اور قانون کا پرچم سربلند کیا جائے یہ کام صرف عدلیہ میں موجود ججز ہی کر سکتے ہیں۔ پیچھے رہ گئے سیاست دان تو یہ صرف اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں کہ کب انہیں خدمت کا موقع ملے اور وہ جی جان سے “مقتدرہ” کے کام آ سکیں۔دوسری طرف ہمارے پیارے خان صاحب ہیں جو کہ انا کے ایسے پہاڑ پر چڑھے ہوئے ہیں جہاں سے اترنا اب ان کے لئے آسان نہیں لگ رہا وہ مذاکرات کرنا تو چاہتے ہیں مگر اقتدار پر قابض ٹولے سے نہیں بلکہ ان سے جو اصل میں اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔اقتدار میں موجود سیاست دان تو خان صاحب کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں جب کہ خان صاحب کا موقف یہ ہے کہ پہلے وہ مینڈیٹ ان کے حوالے کیا جائے جسے 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کی صورت میں ان سے چھینا گیا ہے ۔اب خان صاحب “Idealism” کا شکار ہیں ۔ ملک عزیزکوئی ترقی یافتہ جمہوری ملک نہیں ۔ یہاں تو کسی قبضہ مافیا سے ایک پلاٹ خالی کروانا مشکل ہو جاتا ہے ۔کون اتنی ہمت و جرات کا مظاہرہ کرے گا جو بقول خان صاحب ان کا” مینڈیٹ” واپس کرے گا۔رہ گئی مقتدرہ تو وہ خان صاحب کے ساتھ بیٹھنے کو بالکل تیار نہیں ۔کیونکہ “مقتدرہ” کے نزدیک 9 مئی کا واقعہ ایک ایسا جرم ہے جو ناقابل معافی ہے بلکہ ریاست مخالف اقدام ہے جس کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔اس لئے ججز کا مشورہ بہت ہی صائب رائے ہے کہ پارلیمان میں مل بیٹھ کر ملکی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ ملک سب کا ہے ملک عزیز بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے اس کی بہتری کے لئے سب کو کوشش کرنی چاہئے اگر خدا نخواستہ ملک کو نقصان پہنچتا ہے تو اس کے ذمہ دار تمام سٹیک ہولڈرز ہونگے ۔
پروفیسر قیصر عباس!
Column in Urdu

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں