قاتلانہ حملہ۔ پروفیسر قیصر عباس
قاتلانہ حملہ !, پروفیسر قیصر عباس
اگر ہم سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو بہت سارے ممالک کے سیاسی راہنما اب تک قتل ہوچکے ہیں۔بھارت کے بانی موہن داس کرم چند گاندھی جن کو ایک ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے نے قتل کیا ۔مشہور زمانہ نہرو خاندان کے چشم و چراغ راجیو گاندھی اور ان کی والدہ اندرا گاندھی یک باد دیگرے قتل ہوئے۔بنگلہ دیش کی آزادی کے صرف چند سال بعد ہی” بنگلہ بندو” شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کو روالپنڈی میں قتل کیا گیا لیکن آج تک ان کے قتل کا سراغ نہ لگایا جاسکا۔اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا طیارہ C130 بہاولپور بستی لال کمال میں گر کا تباہ ہوا اور یوں ضیاء الحق کے ساتھ جنرل عبد الرحمن اور امریکی سفیر کے علاؤہ دیگر فوجی اہلکار اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔دسمبر 2007 ء میں ہی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور بے نظیر اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔برطانوی انوسٹیگیشن ادارے سکاٹ لینڈ یارڈ نے اس قتل کا سراغ لگانے کی کوشش کی مگر یہ ادارہ بھی اس میں ناکام رہا ۔ یوں عالم اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کاقتل بھی سیاست کی نظر ہوگیا۔ہمارے ہاں پیپلز پارٹی کے بانی چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو بھی” عدالتی قتل “ہی تصور کیا جاتا ہے۔عرب دنیا کے مقبول راہنما بھی قتل ہوچکے ہیں جن میں تیسرے مصری صدر انور سادات شامل ہیں جنہیں1981ءمیں ایک فوجی پریڈ کے دوران گولی مار دی گئی جب کہ عالم اسلام کے ہر دلعزیز راہنما اور سعودی بادشاہ شاہ فیصل بن عبدالعزیز بھی گولی کا نشانہ بنے۔گزشتہ دنوں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پنسلوانیا میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے کہ ان پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ بال بال بچے۔ اخباری رپورٹس کے مطابق ان پر کئی گولیاں چلائیں گئیں اور ایک گولی ان کے کان کو چھو کر گزری جس کے نتیجے میں وہ معمولی زخمی ہوئے ۔حملہ آور نے ایک قریبی عمارت کے چھت سے فائرنگ کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور مارا گیا ۔یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارتی الیکشن 2024ء میں ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہیں اور ان کا مقابلہ موجودہ صدر اور ڈیموکریٹک امیدوار جو بائڈن سے متوقع ہے ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کی اکثریت کی یہ رائے ہے کہ نومبر 2024 ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت یقینی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت امریکہ کے مقبول ترین صدارتی امیدوار ہیں۔اس حملے کی نہ صرف عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے بلکہ امریکی صدر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حریف صدارتی امیدوار جو بائڈن نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے اور کہا کہ امریکی سیاست میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے کے بعد امریکیوں کو متحد رہنے کی اپیل کی ہے۔یاد رہے امریکہ میں امریکی صدور پر حملے کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ پہلے صدر نہیں جن پر یہ قاتلانہ حملہ ہوا ہے اس سے پہلے چار امریکی صدور قاتلانہ حملوں میں قتل ہوچکے ہیں ان چار صدور میں دو صدور تو بہت ہی مقبول رہ چکے ہیں جن میں ابراہم لنکن اور جان ایف کینیڈی شامل ہیں جو اپنے اپنے ادوار میں بڑے مقبول امریکی صدور تھے باقی دو صدور جیمز کار فیلڈ اور ولیم مک کینی ہیں جن کو قتل کیا گیا ۔قاتلانہ حملوں میں بچ جانے والے صدور میں تھیوڈر روز ویلٹ ٫رونالڈریگن ٫گیرلڈ فورڈ٫ فیرنکلن٫ہیری ٹرومین اور باراک اوباما شامل ہیں۔ابراہم لنکن جو کہ ایک مقبول صدر تھے ان کو فورڈ تھیٹر میں ایک ڈرامہ دیکھتے ہوئے گولی ماری دی گئی ۔تھیوڈر روز ویلٹ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران گولی ماری گئی ۔امریکی تاریخ کے کم عمر ترین اور ابھی تک پہلے اور آخری کتھولک صدر جان ایف کینیڈی کو بھی قتل کیا گیا اور آج تک ان کے قتل کا معمہ حل نہ سکا ۔امریکہ کے مختصر ترین عرصے کے لئے صدر رہنے والے جیمز کار فیلڈ کو بھی قتل کیا گیا اور ان کی مدت صدارت صرف چھ ماہ تھی ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے صدارتی امیدوار نہیں جن پر قاتلانہ حملہ ہوا بلکہ اس سے پہلے بھی متعدد صدور پر یہ حملے ہوئے جن میں چار صدور تو ان قاتلانہ حملوں کی وجہ سے جانبر نہ ہوسکے جب کہ کچھ زخمی ہوئے مگر خوش قسمتی سے ان کی جان بچ گئی ۔اب ان خوش قسمت صدور میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہوگئے ہیں۔ حملہ آور ڈونلڈ ٹرمپ کی جان تو نہ لے سکا بلکہ اس حملے کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ مزید مقبول ہوئے ہیں اور امریکی عوام کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں ۔اس حملے سے پہلے بھی ٹرمپ ایک مقبول صدارتی امیدوار تھے لیکن اس حملے کے بعد ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے اور نومبر میں ہونے والے انتخابات میں قرین قیاس ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک بڑی لیڈ سے دوبارا امریکہ کے صدر منتخب ہو جائیں گے۔
پروفیسر قیصر عباس!