کم عمر دولہا اور دولہن ، امان بونجوی

کم عمر دولہا اور دولہن ، امان بونجوی
آج ہم آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں، قاسم اور گل پری کی کہانی (فرضی نام)، سچی کہانی، یہ کہانی گلگت بلتستان کے ضلع دیامر تحصیل داریل کے قاسم کی ہے، قاسم نو سال کا ہوا تو اس کی شادی بارہ سال کی گل پری سے کردی گئی، دونوں ہی نہیں جانتے کہ شادی اصل میں ہوتی کیا ہے؟ یہاں کہانی میں ایک اور نیا موڑ ہے، پتا یہ چلا کہ قاسم کے گھر والوں کو کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو گھر کا کام کاج سنبھال لیے، نوکرانی رکھنے سے بہتر اور آسان طریقہ یہ تھا کہ گھر میں بہو لے آئیں جو گھر کو سنبھال لے، اب چونکہ قاسم بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا تو اس کی شادی کا فیصلہ کرلیا گیا، یوں بارہ سالہ گل پری کو قاسم کے نکاح میں دے دیا گیا۔ جبکہ محمد قاسم پہلی جماعت کا طالب علم ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کم عمری کی شادی جائز ہے؟
جب محمد قاسم اور گل پری سے ان کی شادی کے بارے میں بات کی گئی تو بظاہر انھوں نے خوشی کا اظہار کیا لیکن چہرے کے تاثرات کوئی اور ہی کہانی سنا رہے تھے، ایک ان کہی کہانی، ایک ایسے معاشرے کی کہانی جہاں گھر کے مرد کا فیصلہ آخری سمجھا جاتا ہے، وہ فیصلہ صحیح ہے یا غلط، اس پر بات کرنے کا کم از کم عورت کو کوئی حق نہیں ہوتا۔ قاسم کا کہنا تھا کہ گل پری اور وہ آپس میں رشتہ دار ہیں، والدین نے بچپن ہی میں ان کی منگنی کردی تھی، گھر میں کوئی کام کرنے والا نہیں تھا، اس لیے گل پری سے ان کی شادی کردی گئی۔
قاسم اور گل پری کا جس علاقے سے تعلق ہے، وہاں بچیوں کو پڑھانے کا کوئی تصور نہیں ہے، عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ جتنا جلد ہوسکے بچی کی شادی کرو اور اپنے فرض سے جان چھڑاؤ، ان دونوں کی شادی کا دوسرا پہلو یعنی گھر کے لیے نوکرانی لانا اور بھی تکلیف دہ ہے۔ کم عمری کی شادی پہلے ہی لڑکی اور لڑکے کے لیے متعدد مسائل کا باعث ہوتی ہے، اس پر گھر کی ذمہ داریاں بھی اگر اٹھانا پڑجائیں تو جسمانی عوارض کے ساتھ نفسیاتی مسائل کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔
جب ہم نے کم عمری کی شادی اور اس کے مسائل پر معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر نسرین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ بعض لڑکیوں بالغ تو ہو جاتی ہیں لیکن ان کی جسم میں ابھی ایسی تبدیلیوں سے گزر رہا ہوتا ہے جو ماں بننے کے لیے ضروری ہیں، کم عمری کی شادی شدید ذہنی اور جسمانی دباؤ کا باعث بنتی ہے، ان کا ذہن اور جسم شادی کے بعد کی زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہوپاتا اور نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں، کم عمری کی شادی کو جسمانی اور ذہنی تشدد قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح حمل اور بچے کی پیدائش کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا، ماں اور بچے کی صحت دونوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، اور اگر بچی کم عمر ہو تو وہ دوران حملا کیسے اپنا خیال رکھ سکتی ہے، اسی طرح بچے کی پیدائش کے بعد بچے کے سنبھالنے اور دیگر جنم لینے والے عوارض سے نمٹنا بڑوں کے لیے مشکل ہوتا ہے تو ایک کم عمر بچی کس طرح ان مسائل سے نمٹ سکتی ہے۔ حمل اور بچے کی پیدائش سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں پندرہ سے انیس سال کی لڑکیوں میں موت کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے، ڈاکٹر نسرین کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ہاں مانع حمل طریقوں کے بارے میں غیرآگاہی بھی مسائل کی اہم وجہ ہے، ان لڑکیوں کو اپنے شوہر کی طرف سے جسمانی تشدد کا بھی سامنا ہوتا ہے، جو مزید مسائل کا باعث بنتا ہے۔
،،،،،،،،،،
انسانی حقوق کمیشن کے رہنما اسرار الدین اسرار کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، لڑکی ہو یا لڑکا دونوں ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں، ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا اور معاملات کی سوجھ بوجھ نہ ہونا شادی ٹوٹنے کی اہم وجہ بن جاتے ہیں، ایک اور مسئلہ بھی سامنے آتا ہے کہ کم عمری میں شادی کا شکار اکثر مرد دوسری شادی کرتے ہیں اور اس کی وجہ پہلی شادی یعنی کم عمری کی شادی کو قرار دیتے ہیں۔
ہم نے دیامر پولیس سے بھی بات کی، پولیس کا کہنا تھا پورے دیامر میں کم عمری کی شادی پر کوئی ایف آئی آر درج نہیں کروائی جاتی، غریب لوگوں کے کم عمر بچیوں کے ساتھ زبردستی شادی کے حوالے سے کچھ ایف آئی آر کٹ جاتی ہیں مگر بعد میں جرگہ کر کے ان کو بھی ختم کروا دیا جاتا ہے۔
کم عمری کی شادی جہاں دیگر مسائل کی وجہ بنتی ہے، وہیں ذہنی پختگی نہ ہونے کے باعث لڑکیاں حالات کا صحیح ادراک نہیں کرپاتیں اور بات طلاق اور دشمنی تک جاپہنچی ہے، اگر پہلی بیوی دوسری شادی پر اعتراض کرے تو اسے تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہاں بھی پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی کہ جب تک شکایت نہیں آئے گی، کوئی کارروائی کیسے ہوسکتی ہے، کسی بچی یا خاتون میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گھر والوں یا والدین کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائے۔
اب ہم واپس چلتے ہیں قاسم کی کہانی کی طرف، میڈیا سے گفتگو میں قاسم کا کہنا ہے کہ وہ بڑا ہوکر دوسری شادی کرے گا، لیکن یہ شادی کسی پڑھی لکھی لڑکی سے کرے گا تاکہ وہ لڑکی مستقبل میں اس کے ساتھ چل سکے۔ اور بچوں کو ایک اچھا ماحول میسر آسکے۔ قاسم اور گل پری کی شادی سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے، اکثر افراد نے اس شادی کو نامناسب اور غیر اخلاقی قرار دیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں کم عمری کی شادی کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہی ہیں مگر انتظامیہ اور پولیس کا عدم تعاون ایسے واقعات کی روک تھام نہ ہونے کا ایک سبب ہے۔
محمد قاسم کا کہنا ہے کہ وہ اب اسکول نہیں جائے گا، بلکہ محنت مزدوری کرے گا، گھر کے لیے دو پیسے کمائے گا، قاسم اور گل پری کی شادی نے دو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا، جو بچے اپنا دھیان نہیں رکھ سکتے وہ پورے گھرانے کی ذمہ داری کیسے اٹھا سکتے ہیں، کم عمری کی شادی قانونی طور پر جرم ہے، رسم و رواج کے نام پر جاری اس طرح کی شادیوں کو روکنے میں انتظامیہ کو اپنا کرادار ادا کرنا ہوگا، صرف یہی نہیں کم عمری کی شادی سے پیدا ہونے والے مسائل سے عوام کا آگاہ بھی کرنا ہوگا تاکہ لوگ رضاکارانہ طور پر اس قبیح رسم یا رواج سے چھٹکارا پائیں۔
urdu column, Early marriage

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں