کم بیک ، ابن خلدون کا نظریہ پی ٹی ائی پر اپلائی کیا جائے پروفیسر قیصر عباس

کم بیک ! ابن خلدون کا نظریہ پی ٹی ائی پر اپلائی کیا جائے.
urdu news,Ibn Khaldun’s theory should be applied to PTI
ابن خلدون ایک مشہور اسلامی فلاسفر ،مورخ اور ماہر عمرانیات تھے ۔وہ 1332ء کو تیونس میں پیدا ہوِئے ۔تعلیم سے فراغت کے بعد تیونس کے حکمران ابو عنان کے وزیر مقرر ہوئے مگر محلاتی سازشوں سے تنگ آ کر وزیر کا عہدہ چھوڑا اور تعلیم وتدریس کی طرف راغب ہوگئے۔جامعہ الازہر میں معلم کے طور پر اپنے فرائض ادا کرتے رہے ۔ابن خلدون کی بہت سی تصانیف ہیں مگر مقدمہ ابن خلدون کو ایک الگ مقام حاصل ہے۔اور ان کی وجہ شہرت بھی یہی تصنیف ہے ۔چونکہ ابن خلدون ماہر عمرانیات تھے اس لئے ان کی اس سماجیات کے موضوع پر بہت مضبوط گرفت ہے۔انہوں نے معاشرے کے ارتقائی مراحل بیان کئے ہیں ۔ان کے نزدیک جس طرح انسان تین مراحل سے گرزتا ہے یعنی بچپن ،جوانی اور بڑھاپا اسطرح کوئی بھی معاشرہ ان مراحل سے گزر کر زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔۔اگر ابن خلدون کا کا یہ نظریہ تحریک انصاف پر اپلائی کیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جماعت بھی اپنی طبعی عمر پوری تو نہیں کر چکی؟پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد 25اپریل 1996ء کو کرکٹ کی دنیا کے جانے مانے نام عمران خان نے رکھی ۔یاد رہے اس سے پہلے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کا اس میدان سیاست میں طوطی بولتا تھا بے نظیر دوسری دفعہ وزیر اعظم بنیں جبکہ میاں صاحب ایک دفعہ وزیر اعظم پاکستان بن چکے تھے ان دونوں ہیوی ویٹ کھلاڑیوں کی موجودگی میں اپنا لوہا منوانا خاصا مشکل تھا۔سیاست کے ابتدائی سفر میں خان صاحب کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا حتی کہ 1997ء کے انتخابات میں خان صاحب ایک سیٹ بھی نہ جیت سکے۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کا تختہ الٹا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔اپنے اقتدار کو قانونی شکل دینے کے لئے جنرل مشرف نے صدارتی ریفرنڈم کروایا تو عمران خان نے اس میں مشرف صاحب کا کھل کر ساتھ دیا مگر جنرل صاحب نے صدراتی ریفرنڈم میں حمایت کے باوجود عمران خان کو اتنی اہمیت نہ دی جتنی دینی چاہئے تھی جس کی وجہ سے عمران خان نےاس کے بعد جنرل مشرف کی ڈٹ کے مخالفت کی البتہ 2002ء میں جنرل پرویز مشرف نے ملک میں عام انتخابات کروائے تو عمران خان اپنی اکلوتی نشست کے ساتھ رکن پارلیمنٹ بن گئے۔2008ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف کے اتحادی بنے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد الیکشن ہوئے میاں صاحب سمیت کچھ جماعتوں نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا مگر زرداری صاحب کے قائل کرنے کی وجہ سے میاں صاحب الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ ہوگئے جبکہ عمران خان نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کردیا یوں خان صاحب 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ کے رکن نہ بن سکے۔تحریک انصاف کے عروج کا زمانہ تب شروع ہوا جب جنرل احمد شجاع پاشا نے اس جماعت پر دست شفقت رکھا اور 2011ءمیں مشہور زمانہ جلسہ اقبال پارک لاہور میں منعقد ہوا۔اس کے بعد 2013ء میں انتخابات ہوئے مسلم لیگ نون نے حکومت بنائی عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے چار حلقے اوپن کرنے کا مطالبہ کیا اور بعد میں یہ بات 35پنکچرز تک وسعت اختیار کر گئی ۔
urdu news,Ibn Khaldun’s theory should be applied to PTI
اس کے بعدجنرل ظہیرالاسلام کی ایما پر ڈی چوک میں دھرنا دیا گیا جسے تقریبا 100 سے زائد دنوں کے بعد اس وقت ختم کیاگیا جب سانحہ APSپشاور رونما ہوا۔2017ء میں میاں صاحب نااہل ہوگئے 2018ء میں عمران خان نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی مگر “محکمہ زراعت “کی مدد و تعاون کے بنا حکومت نہ بنا سکے اس لئے جنوبی پنجاب کے وڈیروں اور ابن الوقتوں کو ساتھ ملایا گیا جس کے بعد عمران خان وزیر اعظم پاکستان بن گئے ۔پورے چار سال تک عمران خان ایک پیج کا راگ الاپتے رہے مگر یہ پیج اکتوبر 2021ء کو تب پھٹ گیا جب ایک طاقتور عہدے پر تعیناتی کا معاملہ زیربحث آیا۔اپریل 2022ء کا مہینہ آیا عمران خان کے خلاف تحریک انصاف اعتماد پاس ہوئی اور خان صاحب مسند اقتدار سےاترنے کے بعددوبارہ سڑکوں پہ آگِئے۔پنجاب اور KPK کی اسملیوں اور حکومت کو صرف اس لئے چلتا کیا کہ وفاقی حکومت پہ دباؤ بڑھے گا تو عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔مگر PDM میں شامل گھاگ سیاست دانوں نے خان صاحب کو چکمہ دیا اسمبلیوں اور حکومت کو ختم کروایا مگر پنجاب اور KPK کی اسمبلیوں کے انتخاب کے لئے سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی پس پشت ڈال دیا ۔9مئی کے دن عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بائیومیٹرک کروا رہے تھے ۔عمران خان کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ کورکمانڈر ہاوس لاہور پر حملہ کیا گیا اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان پشاور کو جلایا گیا ،شہدا کی تصویروں اور قومی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔حکومت کے مطابق یہ سب تحریک انصاف کی مشتعل کارکنان نے کیا جبکہ عمران خان اور تحریک انصاف کے بڑے لیڈران نے ان ہنگاموں اور جلاوٴ گھیراوٴ کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ان واقعات کو تحریک انصاف کے خلاف سازش قرار دیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ آئے روز تحریک انصاف کا کوئی نہ کوئی راہنما 9 مئی کے دلخراش واقعات کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ پارٹی سے اعلان لا تعلقی کا کررہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ابن خلدون کا نظریہ تحریک انصاف پر فٹ آتا ہے؟ کیا تحریک انصاف اپنی طبعی عمر پوری کرچکی ہے یا پھر خان صاحب ایک بار پھر کم بیک کریں گے urdu news,Ibn Khaldun’s theory should be applied to PTI

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں