قسمت میں یہی لکھا ہے! پروفیسر قیصر عباس

قسمت میں یہی لکھا ہے! پروفیسر قیصر عباس
گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری نے لاہور ٹاؤن شپ سے اپنی الیکشن کمپین کا آعاز کر دیا ہے یہاں انہوں نے ایک جلسے سے خطاب فرمایا ٫یاد رہے بلاول بھٹو لاہور کے حلقہ 127 سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کے نانا ذوالفقار علی بھٹو بھی لاہور سے الیکشن لڑے اور جیتے تھے بلکہ پیپلز پارٹی کی بنیاد بھی لاہور ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر رکھی گئی تھی ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بلاول یہاں سے الیکشن جیتتے ہیں یا پھر ہار جاتے ہیں؟ یہ تو آٹھ فروری کی رات فیصلہ ہو جائے گا۔بہرحال بلاول صاحب کا لاہور سے الیکشن لڑنا اور جلسہ کرنا پنجاب میں پیپلز پارٹی کو دوبارہ متحرک کرنے کے لئے ایک اچھی کوشش ہے جنوبی پنجاب میں تو پہلے ہی کچھ جاگیر دار اور گدی نشین پیپلز پارٹی کی طرف سے ہی الیکشن لڑتے ہیں اور کامیابی حاصل کرتے ہیں مگر وسطی پنجاب میں پیپلز پارٹی کافی کمزور پوزیشن میں ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بلاول بھٹو نے کے والد گرامی جناب آصف علی زرداری نے اتنی توجہ اس طرف نہیں دی اور ان کی توجہ کا مرکز سندھ ہی رہا۔جس کی وجہ سے اینٹی نواز شریف ووٹ نے ایک نئی پناہ گاہ میں پناہ لی اس “پناہ گاہ” کا نام “تحریک انصاف” ہے۔نتیجتا پیپلز پارٹی کی عدم دلچسپی کے باعث پنجاب میں جو خلا پیدا ہوا تھا اسے تحریک انصاف نے پرکیا اور ایسے عمدہ انداز میں پر کیا کہ پنجاب میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔ وزارت اعلیٰ کا ہما سردار عثمان بزدار کے سر پر بیٹھا۔اب چونکہ تحریک انصاف پر کڑا وقت ہے اور بلاول بھٹو نے پنجاب ٫خاص کر لاہور سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرکے پنجاب میں اپنی پوزیشن دوبارہ مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مسلم لیگ ن اور ان کے قائد میاں محمد نواز شریف پر کڑی تنقید کی۔بلاول بھٹو نے کہا “مسلم لیگ نون پی ٹی آئی کارکنوں سے انتقام لے رہی ہے ٫پی ٹی آئی کے کارکنان مجھے سپورٹ کریں میں انتقامی سیاست کو دفن کر دوں گا٫ووٹ کی عزت کے دعویدار نظریہ چھوڑ چکے ہیں٫مخالفین کی بہن بیٹیوں کو جیل میں ڈالنا سیاست نہیں۔”بلاول بھٹو نے مزید کہا “بانی پی ٹی آئی سے کہہ کہہ کے تھک گئے گالم گلوچ نہ کرو٫گزشتہ 30سالوں سے انتقام کی سیاست سے گزر رہا ہوں٫میں نفرت اور انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا٫لاہور کی عوام سے کہتا ہوں مایوس نہ ہوں ٫پیپلزپارٹی ملک کو معاشی وجمہوری بحران سے نکال لے گی٫ملک میں نفرت اور تقسیم کی سیاست کا سر کاٹ دوں گا٫انہوں نے فرمایا خود لاہور سے الیکشن لڑ رہا ہوں ٫کہا جاتا ہے لاہور” پاکستان کا دل” ہے مگر دل اس وقت شکستہ ہے٫”ان کا مزید کہنا تھا پیپلز پارٹی کو لاہور اور پنجاب سے ایک سازش کے تحت دور کیا گیا٫جس سے مزدوروں ٫کسانوں ٫نوجوانوں ٫خواتین اور اقلیتوں کو نقصان پہنچا٫ہم ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے اور ملک کو ٹھیک کرنے کے لئے آئے ہیں ٫یہ طعنے دےکر پیپلز پارٹی کا مذاق اڑانے کی کوشش کرتے ہیں ہماری طاقت کم ہے٫انہیں بتانے کی ضرورت نہیں لاہور ان کا نہیں پیپلز پارٹی کا ہے۔”بلاول بھٹو نے تندو تیز لہجے میں کہا”پنجاب پر شوباز شریف اور وسیم اکرم پلس مسلط کئے گئے ٫کیا ایسا بار بار مسلط ہونا لاہور کی قسمت میں لکھا ہے؟ جلسے سے خرم نواز گنڈاپور جو کہ پاکستان عوامی تحریک جس کے قائد مولانا طاہر القادری ہیں٫ نے بھی خطاب کیا اور مسلم لیگ کو آڑے ہاتھوں لیا۔جب کہ چوہدری اعتزاز احسن اور سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی اس جلسے سے خطاب کیا۔چوہدری اعتزاز احسن نے کہا “پیپلز پارٹی میری فیملی اور خون میں دوڑتی ہے”۔اب اس ساری صورتحال میں مسلم لیگی کہاں چپ رہنے والے تھے؟ انہوں نے بھی جوابی” گولہ باری”شروع کر دی ۔مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا”سیاست میں گولی اور گالی بھٹو نے متعارف کروائی”۔نون لیگی رہنما احسن اقبال نے کہا”نواز شریف کا یہ لیول نہیں کہ انڈر ٹریننگ سے مکالمہ کریں ٫بلاول انڈر 19کا کھلاڑی ہے جو ابھی نیٹ پریکٹس کر رہا ہے٫بلاول کو وارننگ دیتا ہوں کہ ہمارے قائد کا نام احترام سے لیں”۔ان کا مزید کہنا تھا کہ” پنجاب میں سیاست کرنا چاہتے ہو تو لاڑکانہ کا مقابلہ میرے نارووال سے کر لو٫اگر میرا نارووال بہتر ہوا تو سیاست چھوڑ دواگر تم بہتر ہوئے تو میں سیاست چھوڑ دونگا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ “تم نے کراچی اور سندھ اجاڑ دیا اب پنجاب اجاڑنے آگئے ہو٫نارووال میں کالج ہی نہیں تین تین یونیورسٹیاں موجود ہیں”یہ تھا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا” شکوہ ٫جواب شکوہ”۔قارئین کو یاد ہوگا صرف چند ماہ پہلے ہی دونوں جماعتیں ایک مخلوط حکومت کا حصہ تھی۔دونوں طرف سے ایک دوسرے کی “قصیدہ خوانی” کی جارہی تھی بلاول صاحب شہباز شریف صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کا بول رہے تھے جب کہ شہباز شریف نوجوان بلاول کو مسلم لیگ نون میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے تھے۔بلکہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بلاول بھٹو خارجہ امور کے وزیرِ بھی تھے دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کرنے کے لئے بلاول بھٹو کو وزیر بنایا گیا تھا مگر یہ کیا؟ آج ایک دوسرے پر الزام تراشیاں جاری ہیں بس میاں ! اسی کا نام سیاست ہے” دھندہ ہے پر گندہ ہے”لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری قسمت میں بھی کیا ایسے سیاست دان ہی لکھے ہیں؟ جو اقتدار حاصل کرنے سے پہلے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے ہیں مگر جب انہیں اس بات کا علم ہوجاتا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کے بنا حکومت نہیں بنائی جا سکتی تو دوبارہ “اچھے بچے “بن کر شیر و شکر ہو جاتے ہیں
پروفیسر قیصر عباس!
Urdu column, Urdu news,

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں