عشق نے تپتے ہوئے صحرا کو وہ دوام بخشا جو قیامت تک توجہ کا مرکز بن گیا۔آمینہ یونس سکردو ،بلتسان
جب امام حسین علیہ السلام زندہ تھے اور اسی تپتے ہوئے صحرا سے پکار رہے تھے: “کیا کوئی ہے جو میری مدد کرے؟ حسین ابنِ علی آج تنہا ہے!” تو اُس وقت ان کی آواز دور دراز رہنے والوں تک نہ پہنچ سکی اور جو قریب تھے۔ انہوں نے خود کو حق پر سمجھتے ہوئے حسین علیہ السلام کی پکار پر کان بند کر لیے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو ان کے دلوں پر پڑے پردے ہٹا دیتے، لیکن حسین علیہ السلام کی تقدیر میں تو ربِ کائنات نے ازل سے ہی شہادت لکھ دی تھی۔ کربلا کا میدان نام نہاد مسلمانوں کے لیے آزمائش اور انجامِ جہنم بن گیا۔ اسی لیے کسی نے حسین علیہ السلام کی فریاد نہ سنی، بلکہ الٹا ان کے خون کے پیاسے بن گئے۔ ان ظالموں کو کیا خبر تھی کہ اسی تپتے ہوئے صحرا میں ایسے پھول کھلنے والے ہیں جن کی خوشبو تا قیامت مہکتی رہے گی۔ اور اسی سرزمین کے گرد مسلمانوں کا ایک جمِ غفیر ہمیشہ زیارت کے لیے حاضر رہے گا۔ وہ حسین جو زندگی میں اس صحرا میں تنہا رہ گئے تھے۔ان کی شہادت کے بعد ان کے دروازے پر ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، بلکہ کروڑوں عقیدت مند سلام کے لیے حاضر رہیں گے۔ ہر مسلمان کی اولین خواہش یہی ہوگی کہ درِ حسین پر حاضری نصیب ہو۔ یزید تو حسین کو مٹانے آیا تھا۔ مگر خود مٹ گیا۔ یزیدی لشکر کے دلوں پر اللہ نے وہ مہر لگا دی تھی جو کبھی کھلنے والی نہ تھی۔ ورنہ فیصلہ ان کے سامنے بالکل واضح تھا۔ نبوت کے چراغ کو چھوڑ کر اندھیروں میں پناہ لینے والے ہمیشہ خسارے کا سودا کرتا ہے اور حسینی جان نثاروں نے وہ بقا پائی جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ کیونکہ آج ہی کے دن امام حسین علیہ السلام نے وہ تاریخ رقم کی تھی جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے کسی نے نہیں کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام انسان تھے، ان کے سینے میں بھی گوشت پوست کا دل دھڑکتا تھا۔ وہ بھی باپ تھے، بھائی تھے، شوہر تھے اور اپنے رشتوں سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ مگر امام علیہ السلام کا ظرف چٹانوں کو بھی چیر گیا۔ وہ عشق کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔ امام حسین علیہ السلام نے عشقِ خدا میں وہ سب کچھ برداشت کیا جس کا تصور بھی انسانی سوچ سے ماورا ہے۔ عشقِ الٰہی نے امام کو وہ بے نیازی عطا کی کہ دنیا اور اس کی بادشاہت ان کی نظر میں رتی برابر بھی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے لیے وہ دوام چنا جو صرف ان ہی کے بلند ظرف کے لائق تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے رحمتُ للعالمین ﷺ کے نواسے، سیدۂ نساء العالمین فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند اور علی المرتضیٰ علیہ السلام کے بیٹے ہونے کا حق ادا کر دیا۔ انہوں نے صبر میں وہ مثال قائم کی جو انسان تو کیا، پتھر بھی نہ سہہ سکیں۔ امام حسین علیہ السلام نے دنیا کو بتا دیا کہ عشق کیا ہے، عشق کی قیمت کیا ہے اور یہ کہ عشقِ حقیقی میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ جب عشق بھی وہ ہو جو رضائے الٰہی کے لیے ہو، تو پھر عاشق جان، مال، اولاد، بہن، بیوی—کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔ اور جب محبوبِ حقیقی اس عشق کو قبول کر لیتا ہے تو دنیا و آخرت دونوں عاشق کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔
دن بھر کی اہم کالمز اور خبروںکی لنک ملاحظہ فرمائیں
ای چالان اسی کے پاس جائیگا جس کے نام پر گاڑی رجسٹر ہوگی: وزیرداخلہ سندھ
ریونیو میں اضافے کیلئے پی آئی اے کا ریاض ائیرکے ساتھ تاریخی کارگو معاہدہ
نوشہرہ، بڑے بھائی کو قتل کرنے پر پشیمان قاتل نے مقتول کی قبر پر خودکشی کرلی




