وفاقی بجٹ 25-2024! پروفیسر قیصر عباس

column in urdu

وفاقی بجٹ 25-2024! پروفیسر قیصر عباس
مسلم لیگ نون کی حکومت نے جو کہ 8فروری کے بعد قائم ہوئی ٫نے اپنا پہلا بجٹ پیش کر دیا ہے ۔پہلا بجٹ ملک کے نئے وزیر خزانہ اورنگزیب زیب نے پیش کیا جب کہ پرانے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اگرچہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں مگر یہ شرف اس دفعہ انہیں نہیں مل سکا اور شاید بجٹ کی تقریر اسحاق ڈار صاحب نے بیٹھ کر سنی ہے۔18877ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے ۔دفاع کے کے لئے 21کھرب 22ارب مختص کئے گئے ہیں ۔ان 21 کھرب میں بری فوج کے لئے 10کھرب٫فضائیہ کے لئے ساڑھے چار کھرب اور نیوی کو دوکھرب تیس ارب ملیں گے۔وزارت آئی ٹی کے لئے 69ارب 5 کروڑ 58 لاکھ رکھے گئے ہیں ۔وزارت مواصلات میں 131منصوبوں کے لئے ایک کھرب 81ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لئے 22ارب رکھے گئے ہیں جن میں 12 ارب روپے وزیراعظم لیپ ٹاپ سکیم کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔آبی وسائل کے لئے 206ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وزارت صحت کے لئے 54ارب 86 کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔الیکشن کمیشن کے لئے 9ارب 63 کروڑ رکھے گئے ہیں۔وزارت فوڈ سکیورٹی کے لئے 41ارب تجویز کئے گئے ہیں۔وفاقی کارپوریشنوں کے لئے 3 کھرب ٫فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کے لئے 70ارب جبکہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے لئے 74ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔19کھرب کے بجٹ میں 14,کھرب کا ترقیاتی بجٹ شامل ہے جب کہ تین کھرب کی مالی معاونت بھی شامل ہے ۔شہباز سرکار نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا ہے ۔گریڈ 1سے لیکر 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد جب کہ گریڈ 17 سے گریڈ22تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 22فیصد اضافہ کیا ہے ۔لیکن اسی کے ساتھ سالانہ 6لاکھ تنخواہ لینے والے پر بھی ٹیکس عائد کر دیا ہے ۔سالانہ 12لاکھ تنخواہ لینے والا 5 فیصد ٫سالانہ 22لاکھ تنخواہ لینے والا 15فیصد ٫سالانہ 32لاکھ تنخواہ لینے والا 32فیصد اور سالانہ 41لاکھ تنخواہ لینے والا 35 فیصد ٹیکس ادا کرے گا۔450 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے جب کہ تنخواہ دار طبقے سے 75 ارب روپے ٹیکس کی مد میں وصول کیا جائے گا۔اس سال کے وفاقی بجٹ میں سگریٹ ٫سیمنٹ درآمدی موبائل فونز اور گاڑیاں بھی مہنگی ہوئی ہیں ۔دوسری طرف سولر پینل اور مچھلی کی خوراک سستی کی گئی ہے۔غیر تنخواہ دار طبقے سے 150 ارب ٹیکس وصول کیا جائے گا۔چئیر مین ایف بی آر کے مطابق ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے افراد بیرون ملک سفر نہیں کر سکیں گے ۔دوسری طرف اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ نے اس بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے سپیکر کے ڈائیس کا گھیراؤ کیا اور بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑاتے ہوئے حکومت مخالف نعرے بازی کی ۔یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے معاشی حالات اتنے اچھے نہیں ہمیں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہوگا۔ لیکن ان بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے جو کہ ابھی تک اس نیٹ سے بچے ہوئے ہیں اور اپنے کالے دھن کی وجہ سے ملک عزیز کے ہر ادارے تک مکمل رسائی رکھتے ہیں ۔رہ گئے سرکاری ملازمین تو وہ پہلے بھی ٹیکس ادا کر رہے ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ پاکستان میں ٹیکس دیتے ہی سرکاری ملازمین ہیں کیونکہ سرکار ان کی تنخواہوں سے براہ راست ٹیکس کی کٹوتی کر لیتی ہے ۔اس کے مقابلے میں سرمایہ دار ٫جاگیردار اور اشرافیہ پر مشتمل ٹولہ کسی نہ کسی طرح ٹیکس سے چھوٹ حاصل کر ہی لیتا ہے ۔جب ملک میں ٹیکس کولیکشن نہیں ہو گی اور ایف بی آر اپنے ٹیکس کے اہداف حاصل نہیں کر پائے گا تو نتیجتاً ہمیں عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑے گا جب ان اداروں سے قرض لے گے تو ساتھ وہ اپنی کڑی شرائط بھی منوائے گےجس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک طوفان ہمارے دروازے پر دستک دے گا۔بیرونی قرضوں سے بچنے کا صرف یہی حل ہے کہ حکمران طبقہ جہاں ٹیکس کولیکشن کو بہتر کرے وہی اپنی مراعات اور عیاشیوں کو بھی لگام ڈالے ۔ایسے تو ممکن نہیں کہ آپ کسی ادارے کی نجی کاری کریں اس بہانے سے کہ وہ ادارہ ملکی خزانے پر بوجھ کیونکہ خسارے میں چل ہے مگر دوسری طرف اپنی شاہ خرچیاں کو نظر انداز کر دیں ۔ہمیں لوکل سرمایہ کاری اور فارن سرمایہ کاری کے لئے ساز گار ماحول دینا چاہے تاکہ ہمارا سرمایہ ڈالر کی شکل میں بیرون ملک منتقل نہ ہو بلکہ بیرونی سرمایہ کار کمپنیوں کو سہولتیں فراہم کی جانی چاہیے ۔سمںندر پار پاکستانیوں کو اس بات کی یقین دہانی کروائی جائے کہ جو سرمایہ وہ باہر سے پاکستان بیجھے گے اس پر ادا کیا گیا ٹیکس ملک کی بہتری کے لئے استعمال کیا جائے گا ۔پاکستان چونکہ بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے مگر کسان کے اخراجات فصل کی پیداوار سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں خصوصاً اس سال جو گندم کی خریداری کے حوالے سے جو گل کھلائے گئے ہیں اگرچہ ایک طبقہ نے اپنی بڑی دیہاڑی تو لگا لی ہے مگر کسان رل گیا ہے اس لئے کسان دوست پالیسیاں بنائی جائیں تاکہ پاکستان کا اکثریتی طبقہ بھی سکھ کا سانس لے سکے۔
پروفیسر قیصر عباس!

بلتستان یونیورسٹی ایک متنازعہ وائس چانسلر کی وجہ سے نیک کی بجاے مسلسل بد نامی کے جانب گامزن ہے علماء امامیہ شگر

شگر ژھے تھنگ آباد کاری میں ضلعی انتظامیہ کی مسلسل رکاوٹ خلاف خلاف ضلع شگر میں پر امن احتجاج

بلتستان یونیورسٹی ڈائریکٹوریٹ آف کیو ای سی کے زیر اہتمام سیلف گریجویٹ پروگرام ریویو (S-GPR) کا دوسرا اور آخری سیشن کامیابی کے ساتھ تکمیل پذیر ہوا

column in urdu ، Federal Budget 2024-25,

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں