بواشاہ عباس ؒ بلتی زبان کے بے تاج بادشاہ تحریر: حامد حسین شگری”
بواشاہ عباس ؒ بلتی زبان کے بے تاج بادشاہ تحریر: حامد حسین شگری”
درویش شاعر اہلبیت،صوفی منش،بلتی زبان و ادب کا محافظ شاعر جناب بواشاہ عباس ؒ بلتستان کے گہوارہ علم و ادب شگر کے مرکزی گاٶں چھورکاہ محلہ خنمیکاہ میں پیدا ہوٸے اور بلتی زبان کو ایک بیش بہا سرمایہ ایک انمول خزانے کی صورت میں اپنے کلام میں سمو گیا ان کی قادر الکلام ہونے میں کوٸی شک و شبہ نہیں-اس دور کے بلتستان کی ادبی اور علمی پسماندگی کے باوجود اس عظیم شاعر کے کلام سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے فردوسی،انیس اور اقبال کے ساتھ اپنی شاعری کا دور گزارا ہو-آپ نے ابتداٸی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی بعد میں شیخ علی اسکردو سے عربی و فارسی کی سطحی تعلیم حاصل کی، اس کے علاوہ آپ نے شیخ سلطان علی بلغاری سے بھی درس حاصل کیا-بواشاہ عباس بنیادی طور پر بلتی زبان کے شاعر و ادیب ہیں۔ آپ کی پوری شاعری اہلبیت ع سے عقیدت کا اظہار ہے آپ کی شاعری میں بلتی زبان کے ساتھ عربی و فارسی کے الفاظ و تراکیب بھی ملتے ہیں آپ بلتی زبان کے علاوہ فارسی اور عربی میں بھی غیر معمولی دسترس رکھتے تھے۔لیکن آپ نے صرف بلتی زبان کو موضوع سخن بنایا باقی دونوں زبانیں یعنی عربی و فارسی صرف قافیہ پیماٸی کا کام دیتی تھیں۔۔اپنی شاعری میں صنعتوں کا استعمال کرنا بخوبی جانتے تھے۔ آپ کےکلام میں تشبہ و استعارہ،مجاز مرسل،لف و نشر اور صنعت حسن تعلیل کی مثالیں جا بجا ملتی ہیں۔راقم حروف ان صنعتوں کو بلتی میں کیاکہتے ہیں نہیں جانتا البتہ محاورہ کو ”تملو“ کہتے ہیں چونکہ میری تحریر کا مقصد زبان و ادب کا فروغ ہے جوکہ ہمیں صرف اور صرف شاعری کی ہٸیت میں نظر آتا ہے ۔۔ ہر علاقے کی ایک اپنی الگ ثقافت ہوتی ہے اور زبان اس کی بنیاد اور پہچان ہے ۔۔۔بلتی زبان کے بولنے اور سمجھنے والے بلتستان کے علاوہ دنیا کے ہر گوشہ و کنار میں موجود ہیں ۔۔۔۔
زمانے کی گردش نے باقی زبانوں کے ساتھ بلتی زبان و ادب کو بھی نقصان پہنچاٸی ہے لہذا میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ان تمام شعرا کا جنہوں اپنے نقوش اور شاعری کے ذریعے اس زبان کو زندہ و جاوید رکھا اور خاص کر خراج عقیدت پیش کرنا واجب سمجھتا ہوں بلتی زبان و ادب کے خداٸے سخن شاعر جناب بواشاہ عباس ؒ کا کہ آپ نے پوری زندگی اس زبان میں اہلبیت علیہ السلام کی مدح سراٸی سے زبان کو زعفران بخشا۔۔۔۔ آپ کی شاعری کو صفحٸہ قرطاس نہ لانے کامقصد تحریر کی ضخامت کا ڈر ہے ۔۔بوا شاہ عباس کے کلام کا صرف ایک شعر اہل ادب کی خدمت میں رقم طراز ہیں۔
”بو تراب یود پا نہ سیکھہ سو یود کھڈے
خنم پو یود دخسن نجف سی آستنی تھوقنہ کھورید “
اس شعر میں بواشاہ عباس نے حضرت امام علی علیہ السلام سے محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے اور شعر میں صنعت حسن تعلیل کا خوب استعمال کیا ہے۔
بلتی زبان بہت ہی خوب صورت زبان ہے لیکن اگر نٸی نسل اس کی حفاظت نہ کی جاٸے تو آنے والے وقت میں یہ زبان معدوم ہونے کا خدشہ ہے چونکہ اس کا باقاعدہ کوٸی رسم الخط نہیں اردو، عربی اور فارسی کے ألفاظ کے مخصوص ترکیب سے ہی اس زبان کی ایک شکل بن جاتی ہے تاہم بولی کے بیس میں یہ سینہ در سینہ منتقل ہونے والی ایک نایاب زبان ہے۔۔ابھی اس زبان کی پھلنے اور پھولنے کا انحصار شاعروں پر ہے باقی عوام الناس نے تو اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا ہے۔
بلتی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ میری اہل ادب سے درخواست ہے کہ قوی زبان یعنی اردو کو بھی اہمیت دے اور اس کی نشرو اشاعت کےلیے سر توڑ محنت کرے جو قوم اپنی زبان کو چھوڑ کے دوسرے زبان کو ترجیح دیتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔۔۔اردو زبان و ادب کا بھی یہی حال ہے صرف شاعر و ادیب نے اس کی حفاظت کی ہے باقی حکومت اور نجی اداروں نے اس کے ساتھ جو برا سلوک روا رکھا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔۔۔اللہ تعالی ہم سب کو زبان و ادب کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرماٸیں ۔۔۔۔امین