IMG 20251120 WA0070 0

ڈگری یافتہ جہالت اور مذہب کا کاروبار۔
جعفر اسدی
گلگت بلتستان میں حالیہ واقعہ۔جہاں قرقرام یونیورسٹی میں محض ایک لڑکی سے نمبر لینے جیسے معمولی مسئلے پر دو گروہ آپس میں لڑ پڑے—ہمارے سماجی زوال کا بدترین ثبوت ہے۔ افسوس کی بات یہ نہیں کہ لڑائی ہوئی؛ افسوس اس بات کا ہے کہ مذہبی ٹھیکیداروں نے اسے شیعہ—سنی تنازعہ بنا کر پورے خطے میں آگ لگانے کی کوشش کی۔ ہمارے معاشرے کی گینڈھی ذہنیت نے فوراً اس لڑائی کو فرقہ وارانہ رنگ دیا، جیسے یہ کوئی ایمان کی جنگ ہو اور ہر فریق کو اپنا مذہب بچانا ہو۔
سچ تو یہ ہے کہ نہ یہ لڑائی مذہب کی تھی، نہ غیرت کی، نہ عقیدے کی۔
یہ صرف جہالت کی لڑائی تھی… اور وہ بھی تعلیم یافتہ جہالت۔
آج GB سمیت پورا پاکستان ایک ایسی نسل پیدا کر چکا ہے جو ہاتھ میں ڈگری رکھتی ہے مگر ذہن میں سوال کرنے کی صلاحیت نہیں۔ یہ عجیب دور ہے—جہاں لاکھوں نوجوان ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لئے بے روزگاری کی لائنوں میں کھڑے ہیں، لیکن عملی زندگی میں ان کی سوچ کا معیار محلے کے جاہل لٹھ بردار سے بھی نیچے جا چکا ہے۔ وہ تعلیم جس کا مقصد شعور دینا تھا، کردار بنانا تھا، برداشت اور مکالمہ سکھانا تھا—وہ تعلیم آج صرف کاغذی نمبرز کی دوڑ بن کر رہ گئی ہے۔
گلگت بلتستان کے نوجوان آج بھی مذہبی گارڈز، مسلکی ٹھیکیداروں اور سیاسی ایجنٹوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ یہاں کسی کو مذہب کی فکر نہیں، سب کو اپنی دکان بچانی ہے۔ بس ذرا سی چنگاری جلتی ہے تو یہ لوگ پٹرول کی بوتل اٹھا کر پورے علاقے پر انڈیل دیتے ہیں۔ نتیجہ؟
یونیورسٹیاں بند، کاروبار بند، ماحول کشیدہ، اور نوجوانوں کا مستقبل دائو پر۔
اگر یہی روایت چلتی رہی تو کچھ سال بعد ہم سب اسی جلتی ہوئی آگ میں خاکستری ہوتے رہیں گے، مگر ہمارے مذہبی کاروباریوں کی کان پر پھر بھی جوں نہیں رینگے گی۔ وہ آج بھی “مذہب خطرے میں ہے” کا نعرہ لگا کر اپنی سیاست، اپنی وکالت اور اپنی شہرت کے چراغ جلاتے رہیں گے۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ لوگ پڑھے لکھے نہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ شعور نہیں رکھتے۔
یہی وہ تعلیم ہے جس پر آپ نے ٹھیک کہا:
“لعنت ہے ایسی پڑھائی پر جو قوم کو شعور نہ دے۔”
اس ڈگری کا فائدہ ہی کیا جو انسان کو انسان بنانا سکھا نہ سکے؟ جو اسے تحمل، برداشت، گفتگو، اور اختلاف کا ادب نہ سکھا سکے؟ ایسی تعلیم دراصل فیشن ہے، ضرورت نہیں۔
آج وقت ہے کہ گلگت بلتستان اپنے نوجوانوں کو اس ذہنی غلامی سے نکالے۔
وقت ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ مذہب کا کاروبار کرنے والے اصل دشمن وہی لوگ ہیں جنہیں ہم اپنا رہنما سمجھ کر سر پر بٹھاتے ہیں۔
وقت ہے کہ یونیورسٹیاں علم کے مراکز بنیں، لڑائی اور نفرت کے میدان نہیں۔
ورنہ ایک دن تاریخ یہی لکھے گی کہ:
“ایک پڑھی لکھی قوم بھی، اپنی جہالت کی وجہ سے برباد ہو گئی۔”

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!
50% LikesVS
50% Dislikes

ڈگری یافتہ جہالت اور مذہب کا کاروبار

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں