IMG 20251117 WA0075 0

گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی صحت کی پریشانیاں
یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان اس وقت شدت موسمی تبدیلیوں کے دباؤ میں ہے۔ سردی کی غیر معمولی لہر، ہوا میں بے انتہا خشکی، اور موسم کے بدلتے تیور عوام کی صحت پر ایسے اثرات چھوڑ رہے ہیں جو پہلے کبھی اس شدت سے دیکھنے میں نہیں آئے۔ خطہ پہلے ہی سخت موسم کا عادی ہے مگر اس سال صورتحال توقعات سے کہیں زیادہ خطرناک ہو چکی ہے۔ گلی محلّوں، گھروں، دفاتر اور اسکولوں میں ایک ہی بات زیرِ بحث ہے کہ ہر دوسرا شخص بیماری کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ نزلہ، زکام، کھانسی، بخار اور موسمی وائرل انفیکشن نے تقریباً ہر گھر کو گھیر رکھا ہے۔ کل کچھ دوست ملے تو پوچھا ماس کیوں پہن رکھا تو غرض کیا نزلہ زکام سے بستر پر تھا ابھی گزارہ ہو کر بازار آیا ہوں تو اس وقت گلگت بلتستان کا ہر شہر ایک چھوٹے عارضی اسپتال کا منظر پیش کر رہا ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق جب موسم اچانک تبدیل ہو جائے تو انسانی جسم کو دفاعی نظام تیار کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ وائرس زیادہ قوت سے حملہ آور ہوتے ہیں، خصوصاً بچوں، بزرگوں اور کمزور قوتِ مدافعت رکھنے والے افراد پر ان کے اثرات زیادہ شدید ثابت ہوتے ہیں۔ صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ گلگت، دنیور، حراموش، کھلتارو، نگر، بگروٹ، ہنزہ، غذر اور اسکردو سمیت تقریباً تمام علاقوں میں لوگ بیماریوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ کئی گھروں میں بیک وقت دو تین افراد بیمار پڑے ہیں اور ادویات کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں۔المیہ یہ بھی ہے کہ صحت کے بنیادی مراکز میں دوا موجود نہیں، ڈاکٹر موجود نہیں، اور جو عملہ ہے وہ حد سے زیادہ بوجھ تلے دبلا پڑ چکا ہے۔ دنیور ACD ڈسپنسری دنیور اس کا واضح نمونہ ہے جہاں لیڈی ڈاکٹر خود بیمار پڑی ہیں، میل ڈاکٹر موجود نہیں، پیرامیڈیکل اسٹاف زبردستی پورا نظام چلا رہا ہے، مریضوں کے بیٹھنے تک کی جگہ نہیں، اور ادویات نایاب ہو چکی ہیں۔ حراموش کا اسپتال بھی ایسی ہی بدنظمی کا شکار ہے جہاں ایمبولینس مہینوں سے خراب کھڑی ہے۔مگر بات صرف بیماری تک محدود نہیں رہی۔ بازاروں میں شدید سردی کے باوجود گرم کپڑوں، جیکٹس، دستانوں، جرابوں، گُڑ، خشک میوہ جات، شہد، چائے اور مصالحہ جات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ عوام کا جیب خالی ہے اور سردی اندھی ہو کر حملہ آور۔ مگر اس سے بھی تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بعض دکاندار غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ اشیاء بیچ کر عوام کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔ دنیور شہر میں دو نمبر پاپڑز، ناقص کھانے پینے کی اشیاء، ملاوٹ زدہ بسکٹ، ناقص گھی اور مضر صحت مصالحے عام دستیاب ہیں۔ انتظامیہ خاموش ہے، عوام بے حس۔ حد تو یہ ہے کہ کئی لوگ بغیر سرٹیفکیٹ کے میڈیکل اسٹور چلا رہے ہیں اور اہم چوکوں پر بغیر این او سی کے ’کلینک‘ کھلے ہوئے ہیں۔بازاروں میں گھومنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ گلگت بلتستان میں جعلی دوائیاں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ اکثر ادویات نشہ آور ہوتی ہیں اور لوگ لاعلمی میں انہیں استعمال کر کے اپنے معدے اور جگر کو برباد کر رہے ہیں۔ افسوس کہ انتظامیہ کی آنکھیں بند ہیں، اور کچھ لوگ پیسوں کی خاطر ایسی خطرناک زہریلی اشیاء بیچ رہے ہیں جن سے پوری نسل بیمار ہو رہی ہے۔
جب ہم یہ سب دیکھتے ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم ایک صحت یافتہ معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں یا بیمار ذہنیت اور بیمار جسموں کے لشکر کو بڑھا رہے ہیں؟ موسمی تبدیلی تو ایک قدرتی عمل ہے، مگر ہمارا رویہ، ہماری بے حسی، ہماری غفلت اور ہماری غیردانشمندانہ مارکیٹ پریکٹسز اس بحران کو دگنا کر رہی ہیں۔صحت کے ماہرین مسلسل وارننگ دے رہے ہیں کہ اگر احتیاط نہ کی گئی تو یہ موسمی انفیکشن ایک بڑے وبائی بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ گھروں میں مناسب گرمائش کا نہ ہونا، غیر معیاری خوراک کا استعمال، پانی کم پینا، ہاتھ نہ دھونا، اور سرد ہوا کے سامنے بار بار آنا بیماریوں کے پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات ہیں۔ لوگ بخار اور گلے کی سوجن کو معمولی سمجھ کر علاج میں تاخیر کرتے ہیں جس سے بیماریاں پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمۂ صحت اور متعلقہ ادارے فوری اقدامات کریں۔ اسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں ادویات پہنچائی جائیں، ڈاکٹرز کی کمی پوری کی جائے، ایمبولینسوں کی مرمت کی جائے اور دور دراز علاقوں میں موبائل ہیلتھ یونٹس بھیجے جائیں۔ عوام میں آگاہی کے لیے میڈیا مہم شروع کی جائے۔ ریڈیو اور اخبارات پر روزانہ حفاظتی پیغامات نشر کیے جائیں۔ نیم گرم پانی، شہد اور ادرک کا استعمال، وینٹی لیشن، بھیڑ سے دوری اور سردی میں بچوں کو باہر کھیلنے سے روکنا ایسے اقدامات ہیں جن سے بیماری کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکتا ہے۔عوام کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ غیر معیاری اشیاء کی خریداری سے انکار کریں۔ ملاوٹ کرنے والوں کو بے نقاب کریں۔ گھر میں بزرگ اور بچوں کی صحت پر خصوصی توجہ دیں۔ وٹامن سی کا استعمال بڑھائیں اور تھوڑی سی علامت ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
موسمی تبدیلی اب عارضی مسئلہ نہیں رہی۔ آج خشک سردی ہے، کل اچانک بارش ہوگی، پھر دھوپ اور اس کے بعد برف باری۔ اس غیر متوقع نظامِ موسم نے عوام کی صحت، زراعت، رہائش، روزگار اور معیشت سب کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ صرف حکومت کی کوشش کافی نہیں، اجتماعی شعور ناگزیر ہے۔ جب تک حکومت، عوام اور صحت کے ادارے مل کر کام نہیں کریں گے، یہ بیماریاں ہر سال اسی طرح حملہ کرتی رہیں گی۔
گلگت بلتستان اس وقت سردی کی نہیں، ایک صحت کے بحران کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن اگر ہم اجتماعی ذمہ داری، احتیاط اور بروقت اقدامات کا راستہ اختیار کریں تو یہ بحران کم بھی ہوسکتا ہے اور رُک بھی سکتا ہے۔ موسم کی سختی اپنی جگہ، مگر انسان کا شعور، عزم اور اجتماعی جذبہ اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے خطے اور ہمارے عوام پر رحم فرمائے۔
غلطیوں کو در گزر کرنا آپ بھی کمنٹ میں رائے دے سکتے ہو

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!
50% LikesVS
50% Dislikes

گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی صحت کی پریشانیاں یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں