خدارا ! ہمارے بچوّں کوبچالیں، پروفیسر قیصر عباس!
خدارا ! ہمارے بچوّں کوبچالیں، پروفیسر قیصر عباس!
“خدارا ہمارے بچوں کوبچالیں۔” ریاض منصور جو کہ اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب ہیں ٫ اقوام متحدہ کے اجلاس میں یہ جملہ کہتے ہوئے رو پڑے ۔فلسطینی مندوب نے نم آنکھوں اور بھرائی ہوئی آواز میں اقوام عالم سے التجا کی “خدا کے لئے ہمارے بچوں کو بچا لیں٫محلے کے محلے تباہ ہوگئے اور خاندان اجڑ گئے٫یہ نسل کشی نہیں تو اور کیا ہے؟اب لاکھوں فلسطینی اور کہاں جائیں ؟رفح کراسنگ بند ہے٫اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث پانی بجلی اور خوراک کی فراہمی بند ہے٫گھر بمباری میں تباہ ہوگئے ٫ان کا کوئی پرسان حال نہیں٫کچھ لوگ اسرائیل کے لئے درد محسوس کر رہے ہیں مگر فلسطین کی تباہی پر خاموش ہیں٫ایسا کیوں ہے؟ یہ مذہبی تعصب ہے یا نسلی امتیاز ہے یا کالے گورے رنگوں کی نفرت انگیز سوچ ہے٫اسرائیل نے غزہ پر بمباری بند نہ کی تو یہ جنگ پورے مشرق وسطی میں پھیل سکتی ہےاور عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔”
اب سوال یہ ہے کہ اتنی دردمندانہ اپیل کے باوجود کیا دنیامیں امن کے ٹھیکیداروں نے اس التجا پر کان دھرے ؟کیا ان بے ضمیر عالمی قوتوں کا ضمیر اک لمحہ کے لئے بھی جاگا؟کیاان امن کے داعیوں کو اسرائیلی فورسز کی دہشت گردی نظر آئی جنہیں نہتے اور غلیلوں سے لڑتے ہوئے فلسطینی دہشتگرد لگتے ہیں؟10اکتوبر سے لیکر اب تک ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں مقانات تباہ ہوچکے ہیں ۔حتی کہ جنگ کے دروان بین الاقوامی قانون کے مطابق ہسپتالوں اور سویلین آبادیوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا اور صرف فورسز کے خلاف لڑا جاتا ہے مگر اس جنگ میں سویلین آبادیوں سمیت ہسپتالوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔غزہ میں اسرائیلی فوج نے زمینی آپریشن شروع کر دیا ہے اور غزہ پرتین اطراف سے حملہ کردیا گیا ہے۔ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس بند ہے۔مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ بھی ادا نہیں کی جا سکی۔صہیونی فورسز نے لبنانی سرحدی علاقے میں فاسفورس بم بھی پھینکے ہیں۔اس وقت مجموعی طور پر 7ہزار326فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں3038بچے 1726خواتین اور 414ضیعف العمر بزرگ شامل ہیں.یہ شہید ہونے والے کسی عسکری ونگ سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ عام فلسطینی شہری ہیں ان کا جرم صرف یہ ہے کہ ان کاتعلق فلسطین کے مقبوضہ علاقے غزہ سے ہے۔جنگوں کے بھی اصول اور ضابطے ہیں بین الاقوامی برادری نے بین الاقوامی جنگوں کے لئے ضابطے طے کئے ہیں ان اصول وضوابط کے تحت کسی بھی نہتے اور عام شہری کو قتل نہیں کیا جاتا لیکن موجودہ صورتحال دیکھ کر صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ طاقت ور کے لئے کوئی ضابطہ اور اصول نہیں ہوتا۔کثیر تعداد میں غزہ میں رہنے والے مزید محاصرے سے موت کا شکار ہوجائیں گے۔غزہ میں بنیادی سروسز کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ادوایات خوراک اور پانی ختم ہو رہے ہیں۔سیوریج کا نظام تباہ ہونے سے غزہ کی گلیاں ابل رہی ہیں۔غزہ میں 45فیصد رہائش گاہیں تباہ ہو چکی ہیں۔علاقے میں بھیجی جانے والی امداد انتہائی کم ہے۔فلسطینیوں کو ایندھن کی کمی کا بھی سامنا ہے ۔ دوکانوں میں ضرور ی غذائی اشیاء ختم ہوتی جارہی ہیں کیونکہ بجلی کی بندش اور خراب سڑکوں کی وجہ سے ڈیمانڈ اور سپلائی میں ایک بہت بڑا گیپ آگیا ہے ۔کھانے پینے کی اشیاء کو سٹاک بھی نہیں کیا جاسکتا۔غزہ میں بھوک اور پیاس جیسی ” بے رحم ڈائن” رقص کر رہی ہے جب کہ عالمی برادری سمیت مسلم ممالک اس رقص کو سر دھنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور امن قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام اور بے بس نظر آرہے ہیں۔خوراک کے گودام خالی ہوچکے ہیں جب کہ کچھ پر دھاوا بولا گیا ہے جس کے ہاتھ جو لگا لے اڑا ہے۔پچھلے 24گھنٹوں کے دوران غزہ پر 450 حملے کئے جاچکے ہیں۔حتی کہ اسرائیل نے “القدس “ہسپتال خالی کرنے کا حکم دے دیا ہے۔20 لاکھ سے زائد افراد جن کے پاس جانے کے لئے کوئی محفوظ جگہ نہیں٫انہیں خوراک٫پانی ٫رہائش اور علاج سے محروم رکھا جارہا ہے اور ان پر مسلسل بم باری کی جارہی ہے ۔جب کہ امن کے داعی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اس صورت حال میں فلسطینی مندوب نے درست کہا ہے “خدارا ہمارے بچوں کو بچالیں۔
Urdu news, urdu column, Save our children