انسانی المیہ، پروفیسر قیصر عباس
انسانی المیہ، پروفیسر قیصر عباس
پچھلے ایک ہفتے سے غزہ میں رہنے والے فلسطینی محصور ہو چکے ہیں یہ محصورین ہر قسم کی امداد سے محروم ہیں ۔دوسری طرف اسرائیلی فورسز کی جارحیت جاری ہے ۔سوال یہ ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے والے ادارے کدھر ہیں؟غزہ پر مزید حملوں کی تیاری شروع ہوگئی ہے اور تقریباً 10لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کرنے کے منتظر ہیں۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق ایک ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا ہے جس سے 800افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔دوسری طرف امریکہ اور دوسرے ممالک نے مقبوضہ بیت المقدس سے اپنے سفارتی عملے کا انخلاء شروع کر دیا ہے۔سفارتی عملے کا انخلاء اس بات کا قطعی اعلان ہے کہ اسرائیل اب کی دفعہ کوئی بڑا حملہ کرے گا۔غزہ کے رہنے والے فلسطینی جن کو پہلے ہی پانی بجلی اور ادوایات جیسی سہولیات میسر نہیں ہیں ٫ مزید بربریت کا سامنا کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اسرائیل نے ظلم کی انتہا کردی ہے غزہ جانے والے امدادی سامان کو روک دیا ہے۔امریکہ سمیت روس اور جرمنی نے بھی اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کو وہاں سے نکالنا شروع کر دیا ہے۔اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ بمباری جاری ہے۔اب تک کی بمباری سے فلسطینی شہدا کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔جن میں عورتیں اور بچے کثیر تعداد میں شامل ہیں۔اسرائیلی فوجیوں اور حزب اللہ کی بھی جھڑپیں جاری ہیں جب کہ اسرائیلی فضائیہ نے شام کے شہر حلب کا ائیر پورٹ تباہ کر دیا ہے۔اب تک کی رپورٹس کے مطابق ایک ہزار سے زائد افراد جن میں بچے بوڑھے اور خواتین شامل ہیں غزہ میں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔اسرائیل کی طرف سے جاری محاصرے کی وجہ سے ضروریاتِ زندگی ناپید ہوچکیں ہیں
انسانی المیہ، پروفیسر قیصر عباس
۔ایندھن اور پانی ختم ہورہا ہے۔جب کہ بے گھر افراد کو روزانہ صرف ایک لیٹر پانی امدادی تنظیموں کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔ڈھائی لاکھ سے زائد افراد پناہ گاہوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔خان یونس کے علاقے میں بیکری کے سامنے بریڈ یا روٹی خریدنےوالے افراد کی کثیر موجود تھی اور یہ بیکری بھی اس وقت کھلی جب جنوبی غزہ سے گندم کی اک چھوٹی سی کھیپ وہاں پہنچی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں صرف 24 گھنٹوں کا ایندھن٫پانی اور بجلی بچی ہے ان 24 گھنٹوں کے بعد اصل تباہی شروع ہوگی۔دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے غزہ میں جنگ بندی کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ “غیر ملکیوں کے انخلاء کے بدلے غزہ میں جنگ بندی نہیں کی جارہی اور نہ ہی انسانی امداد کی اجازت دی جارہی ہے”.اسرائیلی بمباری سے اب تک 11فلسطینی صحافی بھی شہید ہوچکے ہیں جب کہ شدید زخمی ہونے والے صحافیوں کی تعداد 20تک پہنچ چکی ہے۔جوابی حملوں میں حزب اللہ نے کئی اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔اس وقت پوری اسلامی دنیا میں حماس ٫حزب اللہ اور ایران ایک موقف پر کھڑے نظر آرہے ہیں ان تینوں اسلامی قوتوں کا موقف ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جس نے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔جب کہ باقی اسلامی ممالک صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں اور اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کی صرف مذمت کر رہے ہیں۔رہ گئی عالمی قوتیں وہ پہلے دن سے ہی اسرائیل کی حمایت کر رہیں ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ کہ یہودی سرمایہ دار عالمی مالیاتی اداروں پر چھائے ہوئے ہیں خصوصاً امریکہ میں تو اسرائیل نواز لابی موجود ہے جو صرف اس شرط پر امریکی صدارتی امیدوار واروں کی حمایت کرتیں ہیں کہ اگران میں سے کوئی امریکی صدر منتخب ہوگا تو اس انتخاب کے بعد اسرائیل کی حمایت جاری رکھی جائے گی اور اسرائیل کے ہر جائز اور ناجائز اقدام کا دفاع کیا جائے گا۔اس لئے جو بھی امریکہ کا صدر منتخب ہوتا ہے اس کا پہلا سرکاری دورہ اسرائیل کا ہوتا ہے جس کے دوران وہ اپنے ووٹرز کو یہ باور کروا دیتا ہے کہ جس کا وعدہ الیکشن مہم کے دوران میں نے کیا تھا اس پر عمل کروں گا۔یہ تو صرف امریکہ کی بات ہے برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک بھی کسی سے کم نہیں ہیں ہر ملک میں یہودیوں کی لابی موجود ہے جو کہ بھرپور طریقے سے اسرائیل کی لابنگ کرتے ہیں ۔اسرائیل کو مظلوم جب کہ حماس ٫حزب اللہ اور فلسطین سے ہمدردی رکھنے والی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دلوانے کی کوشش کرتےہیں۔سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ حریت پنسد اور دہشتگرد جیسے الفاظ کو ہم معانی بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے حریت پنسدوں کو بھی دہشتگرد گردانا جاتا ہے۔ان دونوں الفاظ کو ہم معانی بنا کر فلسطین ٫کشمیر٫ افغانستان اور دیگر خطوں میں جنگ آزادی لڑنے والوں کو دہشتگرد قرار دیا جارہا ہے ۔جو لوگ اپنے وطن اور مٹی کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں وہ دہشتگرد نہیں بلکہ حریت پسند ہیں جب تک ان لوگوں کو آزادی سے رہنے کا حق نہیں دیا جائے گا اس طرح کے انسانی المیے جنم لیتے رہیں گے ۔
پروفیسر قیصر عباس! urdu news, urdu column, Human Tragedy