علوم کے ساتھ ساتھ جغرافیہ و فلسفہ اور سائنس پر نہ صرف دسترس رکھتے تھے.
علوم کے ساتھ ساتھ جغرافیہ و فلسفہ اور سائنس پر نہ صرف دسترس رہتے تھے بلکہ ان کا اظہار اپنے اشعار میں کھل کر کیا کرتے تھے۔
Urdu News, sciences, he had access not only to geography, philosophy and science
حسودگی شکار ہے۔ اور بقدر لب و دندان مورخین ضخامت اور قدامت سے محو ہوتی رہی ہے۔تاہم حضرت بواعباس کے حوالے سے دو چند سطور کتب کے مقدمے کے طور پر دستیاب ہیں۔انہی سے معلوم ہوتا ہے کی ان کی زندگی من جملہ دیگر تبتی باسیوں کی مانند دستی و فاقہ مستی سے عبارت تھی۔ اجرت پر دوسروں کی بھیڑ بکریاں چراکر گزر بسر کیا کرتے تھے۔عیں غربت میں بھی پندار دین و ایمان کا پاس ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ دوران طالب علمی میں ہی ہاتھ لگے سونے کو بھی دیانتداری سے لوٹاکر اپنے استاد کی نظر میں عزت و تکریم حاصل کر لی۔ رفعت کردار اور کمال علم و فن کی بنیاد پر راجاوں کے اتالیق بھی رہے مگر اپنی صلاحیتوں کا مان رکھنے میں اسد اللہ غالب کا سا مزاج رکھتے تھے۔ راجا علی شیر خان نے جب ادبی مباحثے میں سعدی شیرازی کے کسی فارسی شعر پر سید فضل شاہ اور بوا عباس میں تکرار پر مصلحتاً سید فضل شاہ کی تائید کی تھی۔ بوا عباس دوسری دن علی الصبح خپلو سے کوچ کر گئے۔ راجہ کی طرفسے بھیجے گئے آدمیوں کو جواب دیاکہ میں ایسے بے مروت اور بے قدرے راجہ کی صحبت میں بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہوں جو ادبی بحث و مباحثے میں مصلحت کا شکار ہو کر سعدی شیرازی اور میری توہین کرنے پر آمادہ ہو۔ حیات و ممات کی کشمکش اور غربت و تنگدستی کے ان دنوں میں بھی انھیں فکر معاش کی بجائے علم و حکمت کی تلاش رہی۔ انھیں عربی اور فارسی زبان پر نہ صرف عبور حاصل تھا بلکہ فارسی ادب کے بیحد دلدادہ تھے۔ علم و معرفت کی وجہ سے وسعت نظری ایسی حاصل تھی کی نہ صرف عیسائی مشن کے ساتھ انسپکٹر کے طور پر کام کیا بلکہ انجیل مقدس کا بلتی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔صوفیانہ طرز زندگی کی چھاپ ان کی شاعری اور ادب پر بھی بصد حسن و خوبی نظر آتی ہے۔ دیگر تمام نامی گرامی شاعروں کی مانند آپ بھی حضرت علیؑ کے سچے عاشق اور عقیدت مند تھے۔ ان شان میں لکھی بہت سے قصیدے فنی، تکنیکی بیان و معانی اور علم و عرفان کے اعتبار سے شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلتی شاعری میں آپ کے قصائد، مناقب اور حمد و نعت، تخیلاتی وسعتوں، ایمان و عقیدت کی چاشنی، علم و حکمت اور تشبیہات و تلمیہات کی خوبصورتی سے مزین ہیں۔دینی
علوم کے ساتھ ساتھ جغرافیہ و فلسفہ اور سائنس پر نہ صرف دسترس رہتے تھے بلکہ ان کا اظہار اپنے اشعار میں کھل کر کیا کرتے تھے۔