نگران حکومت، پروفیسر قیصر عباس!
نگران حکومت، پروفیسر قیصر عباس!
urdu news, About Caretaker government,
پاکستان میں اس وقت نگران حکومت ہے جس کے سربراہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پشتون انوار الحق کاکڑ ہیں۔ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے قابل اعتماد آدمی ہیں جس کی وجہ سے انہیں یہ اہم عہدہ دیا گیا ہے۔پاکستان میں یہ عہدہ 1990ءکے پارلیمانی انتخابات سے پہلے نہیں تھا اور 1990ء میں پہلے انتخابات تھے جو نگران حکومت کی نگرانی میں کروائے گئے نگران حکومت کا نظریہ 1977ء کے عام انتخابات کے بعد پنپنا شروع ہوا کیونکہ 1977ء کے عام انتخابات اس وقت کی بھٹو حکومت کی موجودگی میں کروائے گئے جس میں سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا مخالف امیدواروں کو اغوا کیا گیا اور بلا مقابلہ الیکشن جیتے گئے نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد PNA نے دھاندلی کے الزامات لگا کر بھٹو محالف تحریک شروع کردی بعد میں اس تحریک کو مذہبی رنگ دے کرتحریک نظام مصطفی کا نام دے دیاگیا۔ نظام مصطفیٰ کے مسحورکن نعرے کی وجہ سے ہر خاص و عام نے اس تحریک کی حمایت کی اس تحریک کی وجہ سے نظام مصطفیٰ تو رائج نہ ہوا لیکن فوج کے سپاہ سالار جنرل محمد ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔جب ضیاءالحق طیارہ حادثے میں جانبحق ہوگئے اور اقتدار اس وقت کے سینٹ کے چیرمین غلام اسحاق خان نے سنھبالا تو 1988ء کے عام انتخابات ان کی زیر نگرانی کروائے گئے ۔1990ء کے انتخابات سے لیکر اب تک مختلف شخصیات نگران سیٹ اپ کے تخت اپنے فرائض سرانجام دے چکیں ہیں نگران حکومت کی اہم زمہ داری شفاف اور غیر جانب دار الیکشن کا انعقاد ہے جو کہ کم بیش 90 یا 60 روز کے اندر کروانے ہوتے ہیں۔اس کے بعد ملک کے اہم ترین فیصلے آئندہ آنے والی حکومت کرتی ہے۔اخباری رپورٹس کے مطابق موجودہ نگران حکومت کے گزشتہ اٹھارہ دنوں کی کارکردگی یہ ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج کے کل حجم میں پانچ کھرب پندرہ ارب کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں چھ گنا اضافی ہوا ہے۔ سونا 3400 روپے مہنگا ہوا ہے۔جب کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد ان کی قیمتیں بھی اب آسمان سے باتیں کررہیں ملکی کی معاشی حالت دگرگوں ہے۔ رہی سہی کسر بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے نکال دی ہے توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ناصرف گھریلو صارفین پریشان ہیں بلکہ صنعتی شعبہ بھی متاثر ہوا ہے کیونکہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور را میٹریل کی قیمتوں کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹوں میں بھارتی اور بنگلہ دیشی اشیاء پاکستانی اشیاء کے مقابلے میں کم قیمت پر دستیاب ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اشیاء کی کھپت بہت کم ہوگئی ہے۔دوسری طرف جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا اثر زندگی کے ہر شعبہ پر پڑتا ہےاور مہنگائی کا ایک طوفان آتا ہے۔اب حل صرف یہ ہے کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت بلاتفریق پاکستان کے معاشی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے یک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کرے اور وہ ایجنڈا صرف معاشی ہونا چاہئے اور ملک عزیز اس وقت جس گرداب میں پھنسا ہوا ہے اس سے نکالنے کی کوئی تدبیر کی جائے۔پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز اپنی انا کو پس پشت ڈال کر ملک عزیز کی فکر کریں پہلی فرصت میں الیکشن کمیشن ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے اور غیر جانبدار اور شفاف الیکشن کے انعقاد کے لئے اقدامات کرے۔عام انتخابات کے بعد عموماً ہمارے ہاں دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں تمام جماعتیں مذاکرات کے ٹیبل پر بیٹھ کر اپنے لئے اصول و ضوابط طے کر لیں کیونکہ الیکشن ہارنے کے بعد جو دھاندلی کا ڈھونڈرا پیٹتا جاتا ہے اس سے بچا جائے مگر اس کے لئے سب سے پہلا قدم جو اٹھانا پڑے گا اور الیکشن کمیشن کے ادارے کو مضبوط کرنا ہے کیونکہ ہر جمہوری ملک میں الیکشن کمیشن مضبوط ہے اور سٹنگ گورنمنٹ ہی الیکشن کرواتی ہے جبکہ کہ نگران حکومت کا تصور صرف ہمارے ہاں ہی موجود ہے نگران حکومت کو نہ تو عوامی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کی عوامی مسائل سے دلچسپی کیونکہ نگران وزیروں نے کونسا عوامی عدالت میں پیش ہونا ہے ۔عوام دوست فیصلے صرف وہی حکومتیں کرتیں ہیں جنہوں نے عوامی بل بوتے پر اقتدار میں آنا ہوتا ہے۔urdu news, About Caretaker government,