مقاومت فلسطین اور آزادی بیت المقدس، مولانا اختر حسین شگری

مقاومت فلسطین اور آزادی بیت المقدس، مولانا اختر حسین شگری
“وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا”. (سورہ اسرا آیت 81)
اللہ رب العزت نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: ائے محمد (ص) آپ لوگوں سے کہہ دو کہ “حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ بےشک باطل نے فنا ہونا ہے”.
زہوق کا مطلب! تباہی، بربادی، خاک میں مل جانا، ملیامیٹ ہونا اور نام و نشان تک باقی نہ رہنا ہے۔ یہ خالق کائنات کا وعدہ ہے کہ جب حق اور باطل کی لڑائی اور جنگ ہوتی ہے تو حق کی فتح اور باطل کی شکست ہوتی ہے یقیناً باطل نے مٹ جاناہے کیونکہ ان کی شکست، بربادی اور تباہی کا وعدہ اللہ رب العزت نے کیا ہے۔
خالق کائنات نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کے مقابلے میں یہود و نصاری مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے ان کی فکر، سوچ، چال وچلن، جنگ و جدال،طاقت سلطنت اور جنگی ساز و سامان تو صرف اور صرف ظاہری آنکھوں کو دینے والی فریب ہے الہیٰ طاقت کے سامنے یہ سب مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہیں۔

مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّہ أَوْیازاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ ۔
(سورہ عنکبوت آیت 41)

کفار و مشرکین نہ تو پختے ارادے کے مالک ہیں نہ ان میں مقابلے کی طاقت ہے یہ تو متزلزل ارادے کے مالک ہیں اور شیطانی مخلوق ہیں۔ لہذا کھبی بھی یہ مقاومت نہیں کرسکتے۔ تاریخ اٹھاکردیکھیں تو ہر دور میں شکست اور ذلت ان کے مقدر کا حصہ بنی رہی ہیں۔.

اس آیت کے سیاق و سباق کے مطابق اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے رسول خدا کے ذریعہ سے تمام عالم انسانیت کو پیغام دیاہے کہ تمام مسلمانوں کو متحد و یک زبان ہوکر ظلم کے خلاف صدا بلند کرنے اور مظلومین کے ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔کبھی مظلوم کے حق میں تن، من اور دھن کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہئے اور پورے عالم اسلام کو متحد ہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوکر مشرکین کا مقابلہ کرنا چاہئے۔اور جب عالم اسلام متحد اور یک زبان ہوکر ان کی مخالفت کریں گے تو مشرکین و کفار کے حوصلے پست ہونگے اور ناامید ہوکر اپنی کھودی ہوئی قبر میں خود دفن ہو جائیں گے۔

قرآن مجید میں “حق ظاہر ہو گیا” سے مراد اللہ کی نصرت اور مسلمانوں کی کامیابی اور فتح ہے۔ کفار و مشرکین جو کہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہیں اور وہ جو ہاتھ پاؤں پھیلا رہے ہیں اور اپنی مکر وفریب سے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کو اپنی فوج، جنگی سازو سامان پر فخر ہیں اصل میں ان کی یہ ترقی ٹکنالوجی اور ڈیفنس سسٹم تو چار دن ہوتے ہیں اس کے بعد وہ مکمل طور پر غائب اور تباہ و برباد ہوجائیں گے۔

بعض روایات میں “جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ” سے مراد حضرت مہدی (ع) کے ظہور سے تعبیر کیا گیا ہے۔
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: اس الٰہی کلام کا مفہوم یہ ہے کہ: “جب امام قائم علیہ السلام اٹھیں گے تو باطل حکومت کو منہدم کر دیا جائے گا۔”

07 اکتوبر کو حماس کے بہادر جنگجووں نے اسرائیل پر 5000 میزائل داغے۔ اورجرأت و بہادری کی ایک نئی مثال رقم کردی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ حماس جو پتھر اور لکڑی سے جنگ لڑتی تھی اور دشمن کا مقابلہ کرتے کرتی تھی۔ آج پوری طاقت کے ساتھ وارد میدان ہوئی ہے اور پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پوری طاقت اور پلاننگ کے ساتھ اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کی گئی اور وہ اسرائیل جو خود کو سپر پاور ظاہر کرتا ہے اور ان کو اپنی انٹیلیجنس اور عسکری طاقت پر فخر ہیں۔کس طرح فلسطین کے مجاہدین نے مقابلہ کیا اور کر رہے ہیں۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب حملہ ہو رہا تھا تب نہ تو ان کی انٹیلیجنس کو کوئی خبر ملی کہ حماس کے جنگجو شہر میں داخل ہورہے ہیں اور حملے کی پوزیشن میں ہے نہ ان کے خفیہ کیمرے اور جدید ٹیکنالوجی نے یہ آپریشن دیکھایا کہ حملے ہو رہے ہیں۔ اور نہ ان کے آئرن ڈوم اور ڈیفنس سسٹم ان کے کام آیا جن پر ان کو پورا بھروسہ تھا۔ اسی ایک حملے نے ہی ان کی کھوکھلا پن دنیا کے سامنے ظاہر کردی اور ان کی راز فاش ہوا اور سپر پاور دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ہوا۔

فلسطین کی طرف سے اسرائیل پر ابتدائی ٹھپر اتنا محکم لگا کہ ان میں مزید حماس کے مجاہدین سے مقابلے کی ہمت نہ رہی۔ اسی لیے شروعات سے اب تک اسرائیل کے ہاتھوں کبھی فلسطین کے مظلوم بچوں کی شہادت ہوتی ہے تو کھبی اسرائیل افواج فلسطینی عورتوں کے خون سے رنگین نجس ہاتھ لہراتے پھرتی ہیں۔ ان درندوں نے کبھی فلسطین کے مظلوم عوام کی رہائش گاہوں پر بمباری کی تو کبھی سکولوں کو نشانہ بناکر معصوم بچوں کو شہید کر دیا۔

قریب سے لڑنے کی نہ تو ان میں ہمت ہے نہ طاقت ہے اسی لئے لگاتار دور دراز سے چھپ کر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں. کبھی بین الاقوامی مراکز پر راکٹ مارتے ہیں تو کبھی ہلال احمر کو نشانہ بناتے ہیں۔ کبھی سکولوں پر بم پھینکتے ہیں تو کھبی گھروں اور پناگاہوں پر میزائل داغے جاتے ہیں۔ وحشی درندے اور سپر پاور کے دعویداروں نے تو ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشا۔ وہاں پر موجود مریضوں پر بمباری کرکے پورے ہسپتال میں خون کے فوارے پھوٹے، بچے، عورتیں اور مریض لہو لہان ہوئے۔

ان ظالموں نے تو ظلم کی حد پار کردی۔ پورے غزہ میں عوام پر تمام تر بنیادی ضروریات روک دی گئیں۔، پانی، خوراک اور بجلی کی ترسیل بند کردی گئی۔ وہاں پر گہما گہمی کا ماحول ہے۔ غذا کی قلت اپنی جگہ وہاں کے بچے تو ایک گھونٹ پانی کے لیے بھی ترستے ہیں، غزہ کے ہسپتالوں میں میڈیکل سازو سامان کی قلت بڑھتی جارہی ہے، گھروں، سڑکوں، سکولوں اور ہسپتال پر جگہ جگہ بمباری اور میزائل داغے جا رہے ہیں۔

غزہ میں قیامت کا سماں ہے، مشکلات روز بروز بڑھتی جارہی ہے، نہ گھر محفوظ ہے ، نہ مساجد، نہ ہسپتال، نہ سکول، غزہ و فلسطین کے مظلوم عوام، بچے اور خواتین کی نگاہیں خدا پر اور عالم انسانیت کی طرف ہیں۔

لہذا مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ اس ظلم کے خلاف صدا بلند کریں مظلوم کی حمایت اور ظالم و طاغوت کے ساتھ مقابلہ کریں وہاں پر توکربلا اور قیامت کا سماں ہے عوام الناس کو ضروریات زندگی میسر نہیں ہیں۔

لہذا عالم انسانیت کو اور خاص کر مسلمان ممالک کو بروقت “مسجد اقصی” کی حفاظت اور مظلوموں کی حمایت کے لیے ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

او-ائی-سی کو کھل کر میدان میں آنے کی ضروت ہے مسلمانوں کے ساتھ قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور 57 اسلامی کے فوجی اتحاد تماشائی بنا بیٹھے رہے۔ فقط بیان بازی کافی نہیں ہے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کا وقت آگیا ہے تاکہ فلسطین کے مجاہدین کے حوصلے بلند ہوں اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرسکے اور بہت جلد صہیونیست کا خاتمہ ہو۔

“نَصرُ مِن اللهِ و فَتحٌ قریب” (القرآن)
اللہ کی مدد اور تمام مسلمانوں کے باہمی تعاون اور مدد سے ان شاء للہ یہ جنگ اسرائیل کے خاتمے کی آخری جنگ ہوگی۔ اسرائیل کا نام و نشان دنیا کے نقشے سے مٹ جائےگا اور تمام مسلمانان جہاں کو دوبارہ بیت المقدس کی زیارت نصیب ہوگی۔
Urdu column,Palestinian resistance and freedom

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں