ورکرز کو جواب، پروفیسر قیصر عباس!
ورکرز کو جواب، پروفیسر قیصر عباس!
سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین عزت مآب جناب آصف علی زرداری نے ضلع گھوٹکی کی تحصیل خان گڑھ میں واقع گوہر پیلس میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑنے والوں کو خوش آمدید کہیں گے٫پی ڈی ایم حکومت میں دوستوں نے میری بات نہ مان کر ملک کا نقصان کیا٫ان کو کام کرنا آتا ہے نا کروانا”.ان کا مزید کہنا تھا”مخالفین آئیں الیکشن میں کھڑے ہوں ہم انہیں ویلکم کہتے ہیں٫جمہوریت میں جب مقابلہ ہوگا تب ہی بہتر ہوگا٫میں نے صدارتی اختیارات کم کرکے پارلیمان کو طاقت ور کیا اس کے پیچھے اک سوچ تھی اگر ایسا نہ کرتا تو کوئی بھی آکر ان اختیارات کو ختم کرکے آمریت کا نظام رائج کر سکتا تھا اب ایسا کرنے کے لئے مارشل لاء لگانا پڑے گا جو آج کی صدی میں آسان نہیں ہے٫اب بھی جب ہم حکومت میں تھے تو پی ڈی ایم کے دوستوں نے ہماری بات نہیں مانی جس سے ہمیں پانچ سے دس ارب ڈالر کا نقصان ہوا٫ہم نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کو اس لئے نہیں ہٹایا کہ ہمیں حکومت یا اختیارات کی ضرورت تھی مخالفوں کو پیغام ہے کہ چئیرمن پی ٹی آئی کو اقتدار پانے کے لئے نہیں ملک بچانے کے لئے ہٹایا.”ان کا مزید کہنا تھا”مجبور ہوں باہر نہیں جا سکتا اپنے ورکرز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا کہوں گا اور انہیں کیا جواب دو گا؟”مذکورہ بالا خطاب میں زرداری صاحب نے اپنے دل کا درد بیان کر دیا ہے اور اپنے کارکنان کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے اور اس بات کا بھی اشارہ دے دیا ہے کہ دل وجان سے پیارے کارکنوں ہمارے ساتھ “ہاتھ “ہوگیا ہے ۔جو عہد وپیمان ہمارے ساتھ اس وقت کی پی ڈی ایم اپوزیشن اتحاد نے ہم سے کئے تھے اس سے وہ مکر گئے ہیں اور اب منزل پر پہنچنا تقریباً ناممکن نظر آرہا ہے کیونکہ بڑے میاں صاحب کی واپسی کے بعد برخوردار بلاول بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے مواقع معدوم ہوچکے ہیں۔ جس طرح کا خطاب زرداری صاحب فرما چکے ہیں بالکل ویسی باتیں ہی پیپلز پارٹی کی باقی قیادت بھی کر رہی ہے ۔سفاری پارک میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا”الیکشن میں کنگز پارٹی کا وہی حال کریں گے جو 2008ء میں کیا تھا٫عدم اعتماد سے دو دن پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی درخواست کی تھی٫شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے میں بہت محنت کی٫فضل الرحمن کے ساتھ الیکشن لڑ سکتے ہیں اور ان کے خلاف بھی ۔”ان کا مزید کہنا تھا “کنگز پارٹی کی بات ہر الیکشن میں ہوتی ہے ٫کنگز پارٹی ہر الیکشن میں کسی نہ کسی صورت میں سامنے آتی ہے٫نون لیگ اور MQM پاکستان کے اتحاد کا ہمیں نقصان نہیں فائدہ ہوگا ٫نون لیگ اور پی ٹی آئی کے دور میں ہم اپوزیشن میں تھے ٫اس وقت سندھ کے وسائل پر ڈاکے مارے گئے لیکن پھر بھی ہم نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے میں بہت محنت کی٫ 8فروری کو کراچی کے عوام پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ دیں گے٫پیپلزپارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے جب کہ پی ٹی آئی کل تک جمہوریت اور آئین پر یقین نہیں رکھتی تھی٫افغانستان کی بات ہم کرتے ہی تو ہمیں تحریک طالبان اور دہشتگردوں کے ساتھ سختی کرنی چاہئے۔”پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا”نواز شریف چار دن جیل جاتے تو ان کا قد بڑھ جاتا٫انتخابات میں زور زبردستی کی تو ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا٫نگران حکومت میں مسلم لیگ ن شامل٫ لیول پلئینگ فیلڈ کیسے ہوسکتی ہے؟اگر الیکشن پنکچر کئے گئے اور الیکشن کی جگہ سلیکشن ہوئی اور کسی کو زور زبردستی اقتدار میں بٹھایا گیا تو نقصان ہوگا۔”اب خورشید شاہ صاحب کا اشارہ کس جانب ہے؟ یہ تو تھوڑی سی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی بتا سکتا ہے۔سابق مشیر برائے امور کشمیر وگلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے جہانیاں میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ٫الائنس کرانا سیاست میں مداخلت کے مترادف ہے اور اس روایت کی ابتدا آمریت کے دور میں شروع ہوئی مقصد من پسند افراد کو اقتدار میں لانا ہوتا ہے۔”قمر زمان کائرہ صاحب کا اشارہ یقیناً مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم کے انتخابی الائنس کی طرف ہے یاد رہے چند روز قبل قائد مسلم لیگ میاں محمد نواز شریف اور ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی کی ملاقات ہوئی جس میں دونوں جماعتوں نے آئندہ مل کر الیکشن لڑنے پر اتفاق کیا۔اب رہ گئے قبلہ و کعبہ مولانا فضل الرحمن تو وہ اسلام آباد کا موسم اور ہواؤں کا رخ دیکھ کر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں گے بلکہ اب تک کی صورتحال دیکھ کر وہ فیصلہ فرما چکے ہونگے کہ اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور انہوں نے مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی میں سے کس کے ساتھ جانا ہے؟دوسری طرف مسلم لیگ کے سنیٹر اور فروری2024ء کے الیکشن کے لئے تیار کردہ منشور کے لکھاری اور میاں برادران کے مشیر خاص عرفان صدیقی نے ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے کہا ہے”نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کبھی انتخابی اتحاد نہیں ہوا اور نہ ہو گا٫ہم نہیں چاہتے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ تصادم کی فضا ہو٫پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون روایتی حریف ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتی رہی ہیں.”عرفان صدیقی مسلم لیگ نون کے تھنک ٹینک میں شمار ہوتے ہیں ان کی گفتگو میں سنجیدگی ہوتی ہے یہ کسی جذباتی رہنما کی بات نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کی باتیں ہیں جو کہ میاں برادران کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں ۔مذکورہ بالا حوالوں اور بیانات سے یہ بات صاف نظر آتی ہے ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کا رونا دھونا ایسے ہی نہیں بلکہ سیاسی بصیرت و بصارت رکھنے والے صاحب شعور شخص پر یہ عیاں ہوچکا ہے کہ آنے والے وقت میں بلاول بھٹو زرداری صاحب وزارت اعظمی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور اس دوڑ میں میاں برادران سب سے آگے ہیں اس لئے زرداری صاحب جو مفاہمت و سیاست کے بادشاہ گردانے جاتے ہیں ان کی تمام سیاسی چالیں الٹی پڑ چکیں ہیں۔اس لئے انہوں نے درست فرمایا ہے کہ میں پیپلز پارٹی کے ورکرز کو کیا جواب دو گا ؟جن کو بلاول بھٹو کو اگلا وزیراعظم بننے کے خواب دکھا چکا ہوں.
Urdu column, Answer to the workers