ملاقاتوں کا سلسلہ! پروفیسر قیصر عباس
ملاقاتوں کا سلسلہ! پروفیسر قیصر عباس
جوں جوں 8 فروری قریب آرہا ہے سیاست دانوں کی آپسی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ان ملاقاتوں کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا؟ مگر ان ملاقاتوں سے سیاسی ماحول کافی گرم ہوگیا ہے۔سب سے پہلی ملاقات استحکام پاکستان پارٹی کے قائد جہانگیر خان ترین اور عون چوہدری کے ساتھ سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف کی ہوئی ہے ۔اخباری رپورٹس کے مطابق چھوٹے میاں صاحب اور جہانگیر خان ترین کے درمیان ہونے والی ملاقات میں آنے والے الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق ہوگیا ہے۔یہ ملاقات میاں شہباز شریف کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہوئی۔لیگی ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات 45منٹ تک جاری رہی۔شہباز شریف اور جہانگیرخان ترین کے درمیان یہ ملاقات پنجاب اور لاہور کی قومی اور صوبائی سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق ہوگیا ہے اب دیگر امور پر مشاورت کے لئے مزید ملاقاتیں ہونگی۔باخبر ذرائع کے مطابق جہانگیر خان ترین آئی پی پی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے نہیں بلکہ لودھراں کی ذاتی سیٹ کے لئے شہباز شریف سے ملنے گئے تھے جب کہ عون چوہدری اپنے اور اپنے بھائی کے لئے لاہور سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں۔اب لودھراں میں دو مخالف گروپس جن میں صدیق خان بلوچ اور عبدالرحمن کانجو گروپ میں صلح ہوگئی ہے اور دونوں گروپس نے ساتھ مل کر چلنے کا ارادہ کیا ہے۔یاد رہے یہ دونوں گروپس اگرچہ جہانگیر خان ترین کے خلاف تھے مگر آپس میں بھی ان کے اختلافات تھے جس کا فائدہ جہانگیر خان ترین کو ہوتا تھا۔مگر اس صلح کے بعد لودھراں کا سیاسی منظر نامہ بالکل تبدیل ہوگیا ہے۔اور یہ سیٹ مسلم لیگ نون پلیٹ میں رکھ کر جہانگیر خان ترین کو نہیں دے گی اگر اس سیٹ پر ایڈجسٹمنٹ ہو بھی جائے تو لوکل سیاست دان اس کو تسلیم نہیں کریں گے ۔رہ گئی بات لاہور کی تو عون چوہدری کی اگرچہ میاں شہباز شریف اور پی- ڈی- ایم کے لئے بہت خدمات ہیں اور انہوں نے عمران خان کو گرانے میں پی – ڈی- ایم کا بہت ساتھ دیا “عدت میں نکاح” والے کیس میں بھی وہ عمران خان کے خلاف گواہ ہیں مگر اس سب کے باوجود وہ قابل اعتماد شخص نہیں رہے ۔ہر باشعور شخص یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو گمنام تھا٫اسے عمران خان کی وجہ سے پہچان ملی ٫شہرت ملی اور پھر ایک وقت پہ وہ اسی عمران خان کے خلاف گواہ بن کے سامنے آگیا ۔اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے عون چوہدری کی جگہ بننا مشکل ہی بنتی ہے۔ دوسری ملاقات میاں نواز شریف صاحب اور چوہدری شجاعت حسین کی ہوئی ہے یہ ملاقات 15سال کے بعد ہوئی ہے٫ یاد رہے 2009ءمیں چوہدری شجاعت حسین کی والدہ کی وفات پر میاں نواز شریف چوہدری خاندان سے تعزیت کرنے ان کے گھر گئے تھے۔اس کے بعد یہ پہلی براہ راست ملاقات ہے ۔یہ ملاقات بھی خالصتاً سیاسی ہے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے کی گئی ہے ۔مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ نون کے امیدواروں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ تو ابھی تک تین سیٹوں تک محدود ہے ان تین قومی اسمبلی کی سیٹوں پر چوہدری شجاعت کے بیٹے چوہدری سالک حسین چکوال اور گجرات کی ایک ایک نشست پر الیکشن لڑیں گے جب کہ ایک سیٹ بہاولپور کی ہے جس پر سابق وزیر خوراک طارق بشیر چیمہ امیدوار ہیں ۔جب کہ چوہدری شجاعت کے چھوٹے بھائی چوہدری وجاہت صاحب کے دونوں بیٹے چوہدری حسین الٰہی اور چوہدری موسیٰ الہی کی دونوں نشستوں پر اتحاد نہیں ہوا ایک سیٹ پر سابق ایم این اے عابد رضا کوٹلہ جو کہ مسلم لیگ نون کے بہت تگڑے امیدوار ہیں جن کا مقابلہ موسیٰ الہی سے متوقع ہے اس پر سیٹ پر نون لیگ نے اتحاد کرنے سے انکار کر دیا ہے جب کہ حسین الٰہی کے مقابلے میں نوجوان امیدوار نواب زادہ حیدر مہدی ہوسکتے ہیں جو کہ چوہدری وجاہت کے بیٹے کو ٹف ٹائم دیں گے۔اب بات کریں بہاولپور کی تو وہاں سے طارق بشیر چیمہ کے حریف چوہدری سعود مجید جو کہ سنیٹر بھی ہیں اپنا حلقہ انتخاب چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ قومی لیول کے اس اتحاد کے مقامی لیول پر کیا اثرات پڑتے ہیں ؟کیونکہ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ قومی اتحادوں کو مقامی رہنما کم ہی خاطر میں لاتے ہیں کیونکہ مقامی سیاست دانوں کے لئے حلقے کی سیاست زندگی اور موت کا مسلہ ہوتا ہے اور ان حلقوں کو آبائی حلقے سمجھتے ہیں اس لئے اگر کوئی پارٹی اپنے امیدوار وار کو اتحاد کی وجہ سے ٹکٹ نہ دے تو پھر وہ امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتا ہے بعض سیاست دان تو آزادحثیت سے الیکشن لڑ کر قانون ساز ادارے تک پہنچ جاتے ہیں۔مسلم لیگ کو ایسے ہی ایک مسئلے کا سامنا جڑانوالہ کے ایک حلقے میں کرنا پڑ رہا ہے جہاں سے طلال چوہدری مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں لیکن شہباز شریف وہاں سے نواب شیر وسیر کو ٹکٹ دلوانا چاہتے ہیں ۔طلال چوہدری پچھلا الیکشن نااہلی کی وجہ سے نہیں لڑ سکے تھے کیونکہ انہیں توہین عدالت کے ایک مقدمہ میں نا اہل کیا گیا تھا۔طلال چوہدری نواز شریف کی محبت میں نااہل ہوئے تھے جب کہ نواب شیر وسیر نے اپریل 2022ء میں لوٹا بن کر عمران خان کی پھیٹ میں چھرا گھونپا تھا ۔اب نواب شیر وسیر بھی اس وقت کی “غداری” کی اب قیمت وصول کرنا چاہتے ییں۔مسلم لیگ کا ٹکٹ اس وقت اسمبلی میں پہنچنے کی ضمانت سمجھا جارہا ہے ۔اس لئے ہر سیاسی لیڈر کی خواہش ہے کہ یا تو اسے مسلم لیگ کا ٹکٹ مل جائے یا پھر مسلم لیگ سے انتخابی اتحاد ہوجائے تاکہ اسمبلی تک رسائی ممکن ہوسکے۔نارووال ایک حلقے میں بھی احسن اقبال اور دانیال عزیز چوہدری آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں ۔احسن اقبال پنجاب اسمبلی کے ایک حلقے سے اپنے بیٹے احمد اقبال کو الیکشن لڑوانا چاہتے ہیں جب کہ دانیال عزیز اویس قاسم خان کی حمایت کر رہے ہیں ۔اس سارے سیاسی منظر نامے میں پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کھل کر مسلم لیگ نون اور میاں نواز شریف پر تنقید کر رہے ہیں ۔انہوں نے اپر دیر اور کوہاٹ میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز کو ہدف تنقید بنایا ان کا کہنا تھا “میاں صاحب چوتھی دفعہ سلیکٹ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں مگر سلیکٹ ہونے کے بعد اپنے سلیکٹرز سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔”بلاول بھٹو زرداری نے کوہاٹ میں جلسے سے خطاب کرتے کہا”ایک لیڈر جیل سے باہر آنے کے لئے الیکشن لڑنا چاہتا ہے جب کہ دوسرا جیل جانے سے بچنے کے لئے الیکشن لڑ رہا ہے ۔”جتنی جارحیت بلاول بھٹو زرداری دکھا رہے ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ ان کی وزارتِ اعظمی کے لئے ” CV”مسترد ہوگئی ہے جب کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی مخالف سیاسی اتحاد جی- ڈی- اے سے مسلم لیگ نون کے معاملات جس طرف چل نکلے ہیں ایسا لگ رہا ہے سندھ کی سلطنت بھی بلاول بھٹو کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے ۔جتنی تیزی سے الیکشن کمیشن کی طرف سے دی گئی انتخابات کی تاریخ قریب آ رہی ہے سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔لیکن اس بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت میں مختلف سیاسی راہنماؤں کی سیاسی ملاقاتیں خوش آئند ہیں ۔کیونکہ سیاسی راہنماؤں کے اختلافات صرف اختلافات تک محدود ہونے چاہئے نا کہ یہ اختلافات دشمنی کا روپ دھار لیں ۔
پروفیسر قیصر عباس!