column in urdu, mental slavery meaning 0

ذہنی غلامی، آمینہ یونس اسکردو بلتستان
آپ کی عنوان پڑھ کر غلامی کا جو تصور ذہن میں ابھرا ہے، وہ مجھے خود حیران کر رہا ہے۔ مطلب، ہم ذہنی غلامی کا مطلب اِدھر اُدھر ڈھونڈ رہے ہیں، حالانکہ اگر ہم غور و فکر کرنے کی عادت ڈالیں، تو ان سب کا جواب ہم خود میں بھی تلاش کر سکتے ہیں۔
اگر تھوڑا سا دماغ کو زحمت دیں تو پتہ چلتا ہے کہ ذہن کو غلام ہم ماں کی گود سے بنانا شروع کرتے ہیں۔ ماں رونے پر بچوں کو لوری کے ساتھ بلی کی ڈراؤنی صورت یا آواز سے ڈرانا شروع کرتی ہے تاکہ بچہ میاؤں میاؤں کرنے سے باز رہے اور ماں کے کام میں خلل نہ ڈالے۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں، ڈرانے کا انداز بدل جاتا ہے۔ “تم یہ کام نہ کرو ورنہ تمہارے ابا ماریں گے”، “باہر مت جاؤ، کوئی اٹھا کر لے جائے گا”، “ہمسائے کے لڑکے یا لڑکی کے ساتھ مت کھیلو، مجھے پسند نہیں ہے” — گویا بچے کے ذہن کو غلام بنانے کا کام ہم گھر سے شروع کرتے ہیں۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

پھر یہی بچہ جب جوان ہوتا ہے تو اس کے ہر عمل پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ کبھی ابا کا ڈروا دے کر، کبھی ماں کی ممتا کا واسطہ دے کر، اور کبھی محلے والوں کی باتوں اور شکایتوں سے ڈرا کر اسے ہر اس کام سے روکا جاتا ہے جو اس کے دل میں مچل رہا ہوتا ہے یا وہ کرنا چاہتا ہے۔ اسے کبھی معاشرے کا ڈر دکھایا جاتا ہے۔ یہی بچہ جب اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو وہ ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے: “کیا میں یہ کروں؟”، “اسے کرنے سے گھر والے ناراض تو نہیں ہوں گے؟”، “محلے میں میری عزت رہ جائے گی؟”، “کیا معاشرہ مجھے قبول کرے گا؟”۔

پھر وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اب اسے ہر قدم پر کسی سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ مشورہ لینے لگتا ہے کہ “کیا میں صحیح کر رہا ہوں یا غلط؟”، “اس کا مجھ پر مثبت اثر ہوگا یا منفی؟”۔ اب وہ قوتِ فیصلہ سے محروم ہو چکا ہوتا ہے، اور اس کے اندر کشمکش کی جنگ چھڑی رہتی ہے۔ وہ اپنی ذہنی وسعت کو ڈر، ناکامی اور معاشرتی دباؤ کے باعث بڑھا نہیں پاتا۔ جو اسے سکھایا گیا، وہ اُسی عمل کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔

چاہے تعلیمی میدان ہو یا شادی بیاہ کا معاملہ، عید کی خوشیاں ہوں یا محرم کی عزاداری، شرعی مسئلہ ہو یا دین کا علم — ہم بچوں کو ایک ہی راستے پر چلائے رکھتے ہیں، ان کو اپنے طور پر سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتے ہیں، پھر کہتے ہیں: “تم قوم کا معمار ہو”، “ایک اچھا انسان بنو”، “ایک فرماں بردار بیٹا بنو”، “ایک اچھی بہو بنو”، “ایک اچھی ماں بنو”، “ایک اچھا معاشرہ تشکیل دو”۔ لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ بچے کا ذہن ایک ڈگر پر چل نکلا ہوتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ “عادتیں پختہ ہو جائیں تو بدلنا آسان نہیں ہوتا، بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے”۔

یہی صورت حال ہر مرد و زن پر یکساں اثر انداز ہوتی ہے، اور یہی حال ہمارے ملک پاکستان کا بھی ہے۔ جب بچہ تھا تو سدھارنے کا نہیں سوچا، اب بوڑھاپے میں کیا خاک سدھرے گا۔
column in urdu, mental slavery meaning

گلگت بلتستان میں خواتین کی تعلیم: روایت، رکاوٹیں اور امید کی کرن، غلام عباس

50% LikesVS
50% Dislikes

ذہنی غلامی، آمینہ یونس اسکردو بلتستان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں