IMG 20251118 WA0000 0

مسلکوں میں بٹے مسلمان کب ایک ہوں گے ؟
ایس ایم مرموی
دنیا کی رنگا رنگی میں اگر کوئی منظر سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے تو وہ ایک ہی ایمان ایک ہی نبیؐ اور ایک ہی قرآن کے ماننے والوں کا بکھر جانا ہے۔ وہ امت جسے خیرِ امت کہا گیا تھا آج اپنی صفوں کے اندر دراڑوں سے کمزور ہو رہی ہے اختلاف ہمیشہ سے تھا مگر یہ اختلاف نفرت میں کب بدلا؟ یہ سوال آج بھی تاریخ کے اوراق پر لرزتا کھڑا ہے فرقہ بندی کوئی نئی بیماری نہیں مگر اس کا موجودہ روپ زیادہ بھیانک ہے پہلے لوگ دلیل سے بات کرتے تھے، آج آوازیں اونچی کر کے اپنا مسلک ثابت کرتے ہیں۔ پہلے علماء کے اختلاف میں ادب ہوتا تھا آج پیروکاروں کے اختلاف میں گالم گلوچ شامل ہے۔ پہلے مسجدیں اللہ کے لیے تھیں آج بعض جگہیں مسلک کے بینر تلے پہچانی جاتی ہیں یہ زوال کی وہ تصویر ہے جسے دیکھ کر آنکھیں نہیں دل روتا ہے اس کا جواب محض سیاسی یا مذہبی نہیں بلکہ نفسیاتی ہے۔ ہم نے حق کو مسلک کی جیب میں بند سمجھ لیا ہے۔ ہم نے خود کو معیارِ ایمان سمجھ لیا ہے اور دوسروں کو حرفِ غلط۔ ہم نے دین کو اپنے اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے اور پھر ایک دوسرے کے رنگوں سے نفرت بھی کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے امت نے اپنا مشترکہ کینوس چھوڑ دیا ہو۔اسلام نے کبھی تنگ نظری سکھائی ہی نہیں تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی مسائل پر اختلاف تھا مگر کبھی دلوں میں کدورت نہ آئی۔ آج ہم معمولی اختلاف پر ایک دوسرے کی تکفیر کر دیتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ اختلاف کیوں ہے سوال یہ ہے کہ برداشت کیوں نہیں ہے ۔۔۔؟ مسلکی لیڈر اپنی شناخت کو مذہب سے زیادہ قوی بنا چکے ہیں۔ منبر اور محراب بعض جگہ اتحاد کے نہیں تقسیم کے ہتھیار بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا نے مسلکی تعصب کو آگ میں تیل کی طرح بڑھاوا دیا ہے۔ نئی نسل دلیل کے بجائے جذبات کی بنیاد پر مذہبی نفرت سیکھنے لگی ہے۔یہ سب دیکھ کر دل سوال کرتا ہے آخر کب ہم مسلمان بنیں گے اور مسلکی کارکن رہنے سے نجات پائیں گے۔۔ یہ سفر کسی بڑے فیصلہ ساز ادارے سے نہیں ہمارے اپنے گھروں محلے کی مسجد آپس کے رویوں اور زبان کی نرمی سے شروع ہوگا۔ اتحاد کبھی حکم سے نہیں آتا رویے سے آتا ہے۔دوسروں کے ایمان کا فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی دلوں کے حال اللہ پر چھوڑے ہم کون ہوتے ہیں ایمان کی عدالت لگانے والے کون ہوتے ہین ۔ علماء کا اصل منصب امت کو جوڑنا تھا مگر ابکے علماء جوڑنے کے بجائے توڑنے یعنی فرقہ پرستی کو ہوا دینے پر لگے ہوئے ہیں ان علماء کو اپنی کردار سازی کرنی ہوگی اپنی روش بدلنی ہوگی کردار ادا کرنا ہوگا نفرت بانٹنے والے واعظ سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں۔حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابوذرؓ، امام جعفر صادقؑیہ سب امت کے مشترکہ ستون ہیں، مگر ہم نے انہیں مسلکی خانوں میں مقید کر دیا۔ جب تک ہم اپنی تاریخ کو مسلکی رنگ سے آزاد نہ کریں اتحاد محض خواہش رہے گا یہ سوچ بدلنی ہوگی کہ یہ مسجد ہماری ہے، تمہاری نہیں۔ مسجد کا مالک نہ میں ہوں نہ آپ صرف اللہ ہے۔اختلاف ہونا فطری ہے مگر دشمنی اختیاری۔ اس اختیار کو سمجھ داری سے استعمال کرنا ہوگا۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

مسلکی اختلاف کا حل یہ نہیں کہ سب ایک مسلک میں آ جائیں بلکہ یہ ہے کہ ہر مسلک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھے۔ جب ہم نے اپنا دل کا دروازہ بند کر لیا ہے تو قرآن کی وحدت اور کعبے کی سمت بھی ہمیں نہیں جوڑ سکتی ایک وقت آئے گا جب عالمِ اسلام کی تباہی کے اسباب پر مورخ لکھے گا کہ امت کو باہر سے کسی نے نہیں توڑا اندر کے اختلاف نے کھوکھلا کر دیا تھا۔ مگر ابھی بھی وقت ہے۔ زخم گہرے ضرور ہیں مگر لاعلاج نہیں اگر ہم آج یہ فیصلہ کر لیں کہ لفظ مسلمان ہماری سب سے بڑی شناخت ہے تو بہت سی دیواریں خود بخود گر جائیں گی۔ مسلمان اُس دن ایک ہوں گے جس دن اپنی زبان سے زہر کے بجائے سلام پھوٹے گا اور دلوں میں مسلک نہیں انسانیت جگہ پائے گی اور وہ دن تب آئے گا جب ہم نفرت کے بجائے سلامتی کا پیغام عام کریں گے جب ہم اپنا مسلک چھوڑ کر نہیں بلکہ اپنی انا چھوڑ کر کھڑے ہوں گے یہی اصل اتحاد ہےاور یہی اس امت کی بقا ہے اپنے عقیدے کو دوسروں پر تھوپنے مسلط کرنے کی بجائے اپنے اوپر لاگو کریں ہر کسی کو اپنے عقیدے سے جیبیں دیں کیونکہ ہر کسی نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے نہ شیعہ نے سنی کا حساب دینا ہے اور نہ سنی نے شیعہ کا حساب تو پھر یہ تعصب پرستی اور فرقہ پرستی کیوں ہے ۔۔؟؟ عقیدہ ہر انسان کا سب سے نازک، سب سے مقدس اور سب سے ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ یہ دل کا وہ چراغ ہے جو جبر سے نہیں فقط یقین اور روشنی سے جلتا ہے۔ جو عقیدہ دلیل، محبت اور کردار سے نہ اپنایا جائے اسے طاقت یا زور سے اپنانے کی کوشش صرف نفرت کو جنم دیتی ہے۔ دنیا کی خوبصورتی اسی تنوع میں ہے کہ ہر انسان مختلف سوچ، مختلف فہم اور مختلف زاویۂ نظر رکھتا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نظریات کی قدر ہو تو ہمیں بھی دوسروں کے نظریات کا احترام سیکھنا ہوگا عقائد پر مکالمہ ہو سکتا ہے اختلاف ہو سکتا ہے مگر مسلط کرنا انسانیت کے خلاف ہے محبت کی زبان ہر دل سمجھتا ہے، زبردستی کی نہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

مسلکوں میں بٹے مسلمان کب ایک ہوں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں