اتحاد، مفاد و ایمان ایک فکری تجزیہ، ایس ایم مرموی
انسانوں کے بنائے گئے بیشتر اتحاد وقتی مفاد، سیاسی ضرورت یا معاشی حساب کتاب پر مبنی ہوتے ہیں جب مفاد ختم ہوتا ہے تو اتحاد کا تسلسل بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی تشویش ہم نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کے بارے میں بھی ظاہر کی ہے کیا یہ حقیقی مسلم بھائی چارہ ہے یا مفاداتی سیاست؟ اتحاد انسانی فطرت کا حصہ ہے خطرے، فائدے یا مشترکہ مفاد میں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ لیکن جب اتحاد کی بنیاد صرف عارضی مفاد ہو تو وہ کمزور ہوتا ہے۔ ایسے اتحاد میں شفافیت، اعتماد اور اخلاقی اصول کمزور پڑ جاتے ہیں۔ مذہبی یا ثقافتی الفاظ سے ڈھانپا ہوا اتحاد، اگر اندر سے مفاد پرستی سے لبریز ہو، تو عوامی توقعات اور حقیقت کے درمیان تضاد جنم لیتا ہے اس طرز عمل کو میں نے خوبصورت انداز میں اجاگر کرنے کی اپنی کاوش کی ہے
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی، مذہبی اور اسٹریٹجک تعلقات ہیں۔ اس رشتے کا ایک رخ اخوتِ اسلام، مشترکہ مذہبی فریضوں اور علاقائی ہم آہنگی کا ہے۔مگر دوسرا رخ اسٹریٹجک، اقتصادی اور سیاسی مفادات کا بھی ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب اخوت کا رخ محض بیانیہ بن کر رہ جائے اور فیصلے مفادات کی بنیاد پر ایسے ہوں جو امتِ مسلمہ کے مشترکہ مفاد یا اخلاقی موقف سے متصادم ہوں۔ میں نے اس سوال کو بہت مناسب انداز میں اٹھایا کیا اتحاد اسرائیل کے خلاف متحد کرے گا یا کسی اور سمت میں موڑ دے گا یہ تشویش بجا ہے کیونکہ نام اور عمل کے درمیان تضاد تاریخی طور پر دکھائی دیتا رہا ہے۔ جب طاقتور قوتیں یا شخصیات دولت اور مراعات کے ذریعہ اثر انداز ہوں تو عوامی مفاد پیچھے رہ جاتا ہے بیانیے میں مسلمان بھائی چارہ مگر عملی فیصلے مغربی یا ذاتی مفادات کے مطابق ہوں اس سے عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ وقتی مفاد کے لیے کئے گئے اتحاد دیرپا حل فراہم نہیں کرتے اور مستقبل میں مسئلے پیچیدہ بنا دیتے ہیں بے خبری یا شعوری کمزوری کے باعث عوام اکثر صحیح سمت میں زور نہیں ڈال پاتے اس کا نتیجہ سیاسی کھیل میں پس ماندہ حلقہ رہ جاتا ہے۔ اس کے لئے بہتر تجاویز
شفافیت کو لازم قرار دیں بین الاقوامی اور دوطرفہ فیصلوں میں شفاف مذاکرات اور عوامی شنوائی ضروری ہے۔
قومی مفاد کو مقدم رکھیں قومی خودمختاری اور عوامی مفادات کو کسی بھی بیرونی دوستی سے اوپر رکھنا چاہیے۔
مذہبی اخوت کو اخلاقی بنیاد بنائیں بھائی چارے کی غلط تعبیر سے بچتے ہوئے اس کی اصل روح انصاف، یگانگت اور کمزور کا تحفظ کو عملی طور پر اپنائیں۔
شعور اور تنقیدی فکر کو فروغ دیں تعلیم، آزاد میڈیا اور سول معاشرتی ادارے جو فیصلوں کے اثرات کی نقادانہ تشخیص کریں، انہیں مضبوط بنائیں۔
قائدانہ ذمہ داری عوامی نمائندوں اور مذہبی رہنماؤں پر اخلاقی تقاضے بڑھائیں وعدہ خلافی یا مفاد پرستی کی صورت میں جوابدہی یقینی بنائیں۔
میری دعا کہ اس بار کوئی نہ بہکے، کوئی نہ پھسلے اور امت ثابت قدم رہے قابلِ تحسین ہے۔ دعا کے ساتھ ساتھ عملی احتیاط اور بیداری بھی ضروری ہے عوام کا شعور، میڈیا کی آزادی اور اخلاقی قیادت وہ ستون ہیں جو نیک نیتی کو حقیقی طاقت میں بدل سکتے ہیں۔
ہر دور میں آزمائشیں آئیں گی، مگر امت کی بقا اسی میں ہے کہ وہ خود کو مفادات کے سودے سے بچائے اور اپنے اصل اصولوں کے مطابق عمل کرے۔ آپ کی فکرمندی اور دعا دونوں امت کے لیے ایک متحرک یاددہانی ہیں کہ بیانیے کے پیچھے عمل کو بھی جانچا جائے، اور پاکستان ہمیشہ اپنے عوامی، اخلاقی اور مذہبی وقار کا محافظ رہے۔ تعلقات دیرپا اسوقت ہوتے ہیں جب کوئی لالچ مفاد نہ ہو اگر لالچ اور مفاد کے نظریے سے اتحاد ہوجائے تو یہ اتحاد نہیں منافقت کہلایا جائے گا اور یہ منافقت دوستی سے پھر دشمنی کیطرف منتقل ہوتی ہے
اتحاد اگر مفادات پر قائم ہو تو وقتی اور عارضی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ جیسے ہی مفاد ختم ہوتا ہے، رشتے بھی بکھر جاتے ہیں۔ لیکن اگر اتحاد اصولوں پر قائم ہو، تو وہ دیرپا اور پائیدار رہتا ہے۔ اصولی اتحاد میں وفاداری، سچائی اور اعتماد شامل ہوتے ہیں، جو وقتی فائدوں سے بالاتر ہو کر نسلوں تک قائم رہتے ہیں۔ یہی اتحاد اصل میں انسانوں، قوموں اور امتوں کو مضبوط بناتا ہے اور ہر آزمائش میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ اللہ کرے پاک سعودی تعلقات دیرپا پا ثابت ہوں اور پوری امت مسلمہ کے لئے یہ اتحاد مثالی بن جائے اور باعث رحمت بنے ۔آمین
column in urdu, Unity, Interest and Faith: An Intellectual Analysis
پاکستان ہمیشہ زندہ باد