column in urdu, unity in Gilgit-Baltistan 0

آغا راحت حسین الحسینی اور قاضی نثار کا گلگت بلتستان میں وحدت کا بیانیہ , امتیاز گلاب بگورو
گلگت بلتستان، جہاں قوم پرست سیاست، فقہی تنوع، اور جغرافیائی حساسیت کا ملاپ پایا جاتا ہے، وہاں امن کی فضا ہمیشہ کسی نہ کسی خطرے کی زد میں رہی ہے۔ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ معمولی واقعات بھی بڑے سانحات میں بدل گئے، کیونکہ دونوں اطراف کے شدت پسند عناصر نے حالات کو اشتعال دلانے کے لیے استعمال کیا۔سوشل میڈیا کے ذریعے افواہوں، جعلی ویڈیوز اور اشتعال انگیز کلپس کا تیزی سے پھیلاؤ کچھ خطیبوں اور کارکنوں کی جانب سے شدت پسندانہ بیانیہ سازی انتظامیہ کی دیر سے مداخلت یا مکمل خاموشی نوجوان نسل میں بےچینی، بےروزگاری اور تعلیمی محرومیاں یہ سب مل کر ایک ایسا ماحول تشکیل دیتے ہیں جہاں کسی بھی وقت چنگاری شعلہ بن سکتی ہے قارئین کرام آغا راحت الحسینی گلگت بلتستان میں تشیع کے روحانی، مذہبی فکری اور سیاسی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی قیادت کا دامن ہمیشہ اعتدال، صبر، اور اصلاحی فکر سے وابستہ رہا ہے
ان کے حالیہ بیان کا لبِ لباب یہ ہے ہم نے کبھی بھی تصادم کی سیاست نہیں کی اگر دونوں فریقین امن پر متفق ہوں، تو یہ خطہ پاکستان کا سب سے پُرامن اور ترقی یافتہ علاقہ بن سکتا ہے یہ بیان دراصل ان تمام “افواہوں” اور “جانبدار تبصروں” کی نفی کرتا ہے جو کسی ایک مسلک کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
مولانا قاضی نثار احمد کا شمار اہل سنت والجماعت کے اثر انگیز خطیبوں اور قائدین میں ہوتا ہے۔ حالیہ خطبے میں اُنہوں نے جو جملے ادا کیے، وہ نہ صرف وقتی سیاسی فائدے سے بلند تھے بلکہ قومی یکجہتی کا ضامن بھی میں کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا۔ ہم سب کو حکمت، سچائی اور افہام و تفہیم کی راہ اپنانی ہوگی یہ ایک ریاست دوست، امن پرور اور عوامی مفاد پر مبنی بیانیہ ہے، جو آنے والے دنوں میں فرقہ واریت کی آگ کو بجھانے میں مددگار ہو سکتا ہے۔
سیاسی قیادت کا رویہ اب تک ملے جلے اشارے دے رہا ہے۔
کچھ علاقائی سیاستدانوں نے امن بیانیے کی توثیق کی، لیکن زیادہ تر نے خاموشی کو ترجیح دی۔ یہ خاموشی بعض اوقات نیم رضا مندی کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔آج میں کچھ
اہم سوالات آپ کے سامنے رکھنے کا رہا ہوں کیا سیاسی قیادت اپنی سیاسی بنیادوں کو مذہبی تناؤ پر استوار کرنا چاہتی ہے؟کیا وہ قیادت جو ووٹ مانگتی ہے آج عوام کو جوڑنے کے لیے بھی آواز اٹھائے گی؟کیا اسمبلی کے فلور پر اس بیانیے کی بازگشت سنی جائے گی؟گلگت بلتستان جیسے حساس خطے میں ریاست کی طرف سے صرف نوٹس لے لیا گیا ہے کا بیان کافی نہیں ریاستی کردار کو درج ذیل اقدامات میں بدلنے کی ضرورت ہے تمام مکاتب فکر کے قائدین کو اعتماد میں لینا
سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف ایکشن
فرقہ وارانہ مواد پر فوری پابندی اور مانیٹرنگ ضلعی امن کمیٹیوں کو فعال بنانا اشتعال انگیز خطابات پر فوری قانونی کارروائی
قارئین کرام یہ بات اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ سنی اور شیعہ عوام کی اکثریت امن چاہتی ہے بدقسمتی سے میڈیا پر جگہ صرف اُن کو ملتی ہے جو چیخنے والے توڑنے والے، یا شدت پسند ہوتے ہیں لہٰذا خاموش اکثریت کو اب خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
لوکل لیول پر امن واک، مشترکہ دعاؤں، علماء کے مشترکہ ویڈیوز، اور بین المسالک سرگرمیوں کو فروغ دینا ہوگا
یہ وقت نہ صرف قیادت کا، بلکہ عوام اور ریاست کا بھی امتحان ہے آغا راحت الحسینی اور قاضی نثار احمد نے ثابت کیا ہے کہ وحدت اور عقل کی زبان آج بھی مؤثر ہے اب عوام کو ان کا ساتھ دینا ہوگا ریاست کو سہارا دینا ہوگا اور سیاستدانوں کو اپنی زبان اور سمت واضح کرنی ہوگی۔
اگر آج ہم نے اس بیانیے کو مضبوط نہ کیا، تو کل تاریخ ہم سب سے سوال کرے گی کہ
جب آگ لگی تھی، تو تم نے پانی پھینکا یا خاموشی اختیار کی؟
محترم قارئین کرام اس پیغام کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی سطح پر لے جایا جائےمیڈیا کو چاہیے کہ ان دونوں قائدین کی تقاریر کو مرکزی جگہ دے”امن کے سفیر” مہم شروع کی جائے جس میں نوجوان، اساتذہ اور تاجر شریک ہوں گلگت بلتستان صرف برف، پہاڑ، اور خوبصورتی کا خطہ نہیں یہ دلوں کا خطہ ہےآئیے، نفرت کے تاجروں کو مسترد کریں اور اُن قائدین کا ساتھ دیں جو ہمیں توڑنے نہیں، جوڑنے آئے ہیں۔ آغا راحت حسین الحسینی اور قاضی نثار کا گلگت بلتستان میں وحدت کا بیانیہ , امتیاز گلاب بگورو

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

column in urdu, unity in Gilgit-Baltistan

50% LikesVS
50% Dislikes

آغا راحت حسین الحسینی اور قاضی نثار کا گلگت بلتستان میں وحدت کا بیانیہ , امتیاز گلاب بگورو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں