سلیم خان — عہدِ حاضر میں ادب کی خاموش خدمت کا استعارہ، یاسمین اختر ریسرچ اسکالر
اردو ادب کی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو اخبارات کی سرخیوں سے دور، مگر اہلِ دل کی نگاہ میں ہمیشہ روشن رہتے ہیں۔ ایسے ہی ناموں میں ایک نمایاں نام سلیم خان کا ہے، جن کا تعلق کراچی، پاکستان سے ہے اور جو اوائل فروری 2024 میں مستقل طور پر ہیوسٹن، ٹیکساس (امریکہ) منتقل ہوئے۔
سلیم خان نے ایم اے اردو اور ایم اے انگلش جیسے مضبوط علمی پس منظر کے ساتھ ادب کے میدان میں قدم رکھا، مگر ان کی اصل پہچان محض تعلیمی اسناد نہیں بلکہ وہ عملی خدمات ہیں جو انہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انجام دیں۔ وہ ایک ایسے منتظم ہیں جن کے نام کے ساتھ “منتظم” محض عہدہ نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد کی علامت ہے۔
انجمن ترویج زبان و ادب بین الاقوامی کی منتظمِ اعلیٰ حیثیت سے لے کر تفہیمِ فکرِ اقبال، مقالہ جات، اندازِ بیان اور رسمی بات چیت جیسے فکری و تنقیدی پلیٹ فارمز تک، سلیم خان کی موجودگی ہر اس جگہ محسوس کی جا سکتی ہے جہاں سنجیدہ ادب کی بات ہوتی ہے۔ دریچہ ادب کے راولپنڈی، اسلام آباد، حافظ آباد، کراچی، کوئٹہ اور لاہور یونٹس کی تنظیم و سرپرستی ہو یا ماورا ورلڈ لٹریری فورم امریکہ کے تحت “ہمارے عہد کے سخنور” جیسے منصوبے—ہر جگہ ان کی فکری بصیرت اور تنظیمی صلاحیت نمایاں نظر آتی ہے۔
برطانیہ سے شائع ہونے والے شمارہ مینارِ اردو میں نائب صدر و مرابطِ اساسی کی حیثیت سے خدمات ہوں، حصارِ ادب عالمی، “ہم زبان” سعودی عرب یا کینیڈا، امریکہ اور پاکستان میں پھیلے ہوئے درجنوں ادبی گروپس اور فورمز کی سرپرستی,سلیم خان نے اردو کو جغرافیائی سرحدوں سے آزاد کر کے ایک عالمی زبان بنانے میں خاموش مگر مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ پی ڈی ایف کتب مہیا کرنے میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ادب کے ساتھ ساتھ ان کی پیشہ ورانہ زندگی بھی غیر معمولی رہی۔ پچیس برس تک ایک ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی میں مارکیٹنگ ہیڈ کے ساتھ وابستگی، اس کے بعد موبائل ٹیلی کام سیکٹر میں بطور پراجیکٹ اور کنٹریکٹ مینیجر خدمات انجام دینا، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ انتظامی دنیا میں بھی اتنے ہی کامیاب رہے جتنے ادبی میدان میں۔ آج وہ ریٹائرمنٹ کی سادہ زندگی گزار رہے ہیں، مگر ادب سے ان کا رشتہ آج بھی اسی توانائی، انہماک اور خلوص کے ساتھ قائم ہے۔
سلیم خان کی شخصیت کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ نہ تو خودنمائی کے قائل ہیں اور نہ ہی صلے کے طلبگار۔ ان کے نزدیک ادب ایک عبادت ہے، ایک ذمہ داری جسے وہ پوری دیانت داری سے نبھا رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا دائرۂ اثر وسیع ہونے کے باوجود ان کا لہجہ ہمیشہ منکسرالمزاجی سے بھرپور رہا ہے۔
آج جب اردو ادب کو نئے چیلنجز اور نئے امکانات کا سامنا ہے، سلیم خان جیسے لوگ امید کی وہ شمع ہیں جو خاموشی سے جلتی رہتی ہے اور بہت سے چراغ روشن کر جاتی ہے۔ دعا ہے کہ ان کی یہ ادبی مسافت اسی طرح جاری رہے اور آنے والی نسلیں ان کی خدمات سے فیض یاب ہوتی رہیں۔
column in urdu, Symbol of Silent Service to Literature in the Modern Era
پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے 75 فیصد حصص کی بولی آج لگائی جائے گی۔
شگر لوکل سپورٹ آرگنائزیشن (LSO) برالدو کے زیرِ اہتمام سالانہ جنرل میٹنگ کے موقع پر ایک شاندار تقریب




