انقلاب زندہ دل قومیں لاتی ہیں ، ایس ایم مرموی
یوں لگتا ہے جیسے ہمالیہ کے دامن میں بہنے والی ندیاں اپنی صدیوں پرانی خاموشی توڑ کر نیپالی حکمرانوں کے دروازوں پر شور مچانے آگئیں۔ کل تک جن وزیروں کی گاڑیوں کے آگے محافظ قطار باندھ کر کھڑے ہوتے تھے، وہی وزراء بلوائیوں کے ہاتھوں اپنی جان کی بھیک مانگتے پھرے۔ منظر ایسا تھا جیسے تاریخ نے ان کے گریبان پکڑ کر کہا ہو تم سمجھتے تھے یہ زمین تمہاری جاگیر ہے، مگر یاد رکھو، جاگیر زمین کی نہیں، عوام کی غیرت کی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں مگر کہانی الٹی ہے۔ یہاں کے حکمرانوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی رشوت کے پیسوں سے جنم لیتی ہے اور آنکھوں میں چمک بھی لوٹے گئے وسائل سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ خون جو ان کے رگ و پے میں دوڑتا ہے، عوام کی پسلیاں توڑ کر نچوڑا گیا لہو ہے۔ اور جو ادارے اصل میں اس لہو کے نگران تھے، وہی اس خون کے پیالے میں شریک ہیں۔ گویا چور اور چوکیدار نے ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا شروع کردیا ہے۔
انقلاب؟ یہ لفظ ہمارے ہاں بس تقریروں، کتابوں اور نعرے بازی میں ہی جیتا ہے۔ انقلاب کے لئے جو جرات، غیرت اور قربانی درکار ہے وہ ہم سے کب کی رخصت ہوچکی۔ ہماری عوام کو آٹے کی ایک بوری، نوکری کا ایک وعدہ، اور بجلی کے بل پر سبسڈی کا ایک جھوٹا نوٹ دکھا کر خرید لیا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ غلامی کی زنجیر ٹوٹنے سے بہتر ہے کہ زنجیر کو سونے کا رنگ دے دیا جائے۔ نیپال کی اکثریت ہندو ہے، مگر غیرت کے ایسے طوفان نے ان کے تخت الٹ دیے کہ حکمران اپنی کرسیوں سمیت بہہ گئے۔ اور ہم؟ ہم تو اسلامی جمہوریہ کہلاتے ہیں، لیکن نہ جمہوریت کی روح باقی ہے نہ اسلام کی غیرت۔ یہاں سب کچھ حلال کے نام پر حرام کی تجارت ہے۔ مسجدوں میں اذانیں گونجتی ہیں مگر بازار میں جھوٹ تولنے کی رسم قائم ہے۔ ایوانوں میں قرآن کے سائے میں قسمیں کھائی جاتی ہیں مگر فیصلے ڈالر کے وزن سے تولے جاتے ہیں۔
ہمارے حکمران آئینے میں اپنے چہروں کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ ان کے آگے سلامی دے گی۔ مگر انہیں کون سمجھائے کہ آئینے کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ آئینہ جب حقیقت دکھاتا ہے تو سب سے پہلا جھٹکا اسی کو لگتا ہے جو اپنی زلفوں کو سنوارنے میں مصروف ہوتا ہے۔
نیپال کے حکمرانوں کی بے بسی ایک سبق تھی، مگر سبق تو وہی پڑھتا ہے جس میں سننے اور سمجھنے کی صلاحیت باقی ہو۔ ہمارے ہاں تو کانوں پر حرام کی روئی ٹھونس دی گئی ہے، اور آنکھوں پر عیش و عشرت کی پٹی بندھی ہے۔ لہٰذا ہمیں انقلاب کے خواب دیکھنے کے بجائے اپنے مفلوج ضمیر کا ماتم کرنا چاہئے۔ کیونکہ غیرت مند قومیں انقلاب لاتی ہیں اور غلام قومیں صرف اپنے حکمرانوں کی جوتیاں صاف کرتی ہیں۔اور ہاں تاریخ کے پردے پر جو مکالمہ لکھا گیا وہ آج بھی زندہ ہے
نیپالی وزیر پسینے میں شرابور، عوام سے جان کی بھیک مانگ رہا تھا۔ اور ہمارا حکمران قہقہہ لگا کر کہتا ہے بھائی! ہمارے ہاں ایسا کبھی نہ ہوگا۔ ہماری عوام کے پیٹ میں روٹی کی بھوک ضرور ہے مگر دل میں غیرت کا دانہ تک نہیں۔ یہ بھوکے پیٹ ہم سے انقلاب نہیں مانگتے، بس اگلے الیکشن میں بریانی کی پلیٹ مانگتے ہیں۔ یہ مکالمہ شاید کل بھی سچ تھا، آج بھی سچ ہے اور اگر ہم نہ جاگے تو کل بھی سچ ہی رہے گا۔
column in urdu, revolutions bring vibrant nations essay