column in urdu , Objectives Education and art fair 0

مقاصد تعلیم اور فن فئیر ، پروفیسر قیصر عباس
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی طرف سے پنجاب بھر کے نجی اور سرکاری کالجز میں ڈانس پر پابندی عائد کر دی ہے۔پنجاب کے تمام 9 ڈارئکٹر کالجز کو ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ہدایات جاری کر دی گئیں ہیں۔اس حوالے سے جاری مراسلے کے مطابق کالجز میں فن فئیر اور سپورٹس گالا کی تقریبات پر اساتذہ اور طلبہ کی انڈین گانوں پر رقص کرنے کی شکایات ملیں ٫تعلیمی ادارے مقدس مقامات ہیں جہاں تعلیم دی جاتی ہے ۔تمام ڈارئکٹر کالجز اپنے زیر انتظام کالجز کے سربراہان کو خصوصی ہدایت کریں ۔کسی کالج سے شکایت ملی تو متعلقہ کالج کے سربراہ اور ڈپٹی ڈائریکٹر کے خلاف کاروائی ہوگی ۔ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے مراسلہ جاری کرتے ہوئے کچھ لحاظ رکھا ہے اور “طلبہ”کا لفظ استعمال کیا ہے حالانکہ جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں اس میں طالبات “رقص فرما”رہیں ہیں اور ساتھ ہمارے کچھ پروفیسرز حضرات ہیں جو جوانی کی دہلیز عبور کرکے بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں لیکن زندہ دلی کا کیا جائے وہ کہتے ہیں نا کہ بندہ بوڑھا بھی ہو جائے تو دل تو جوان ہی رہتا ہے ۔اس لئے ہمارے وہ بوڑھے اساتذہ جن کے دل جوان ہیں وہ بھی رقص فرما کر اپنے روحانی بیٹوں اور بیٹیوں کی جانفشانی سے تربیت میں مگن ہیں۔خرابی ایک طرف کی نہیں ہے بنیادی طور پر ہم اپنے طلبہ کو بامقصد تعلیم دینے میں ناکام نظر آرہے ہیں ۔نمبر گیم اور سی جی پی اے کی دوڑ میں تربیت کا پہلو بالکل نظر انداز کیا جاچکا ہے ۔اگر ہم تعلیم کے عناصر پر بات کریں تو اس میں سب سے اہم عنصر “مقاصد تعلیم” ہے کہ ہم اپنے طلبہ کو کس نہج پر اور کن مقاصد کے لئے تیار کرنا چاہ رہے ہیں۔مقاصد تعلیم کے تعین کے بعد باقی مرحلے شروع ہوتے ہیں ۔ان مقاصد کو سامنے رکھ کر پھر سلیبس مرتب کیا جاتا اور اس طرح کا ماحول فراہم کیا جاتا ہے کہ با آسانی مقاصد تعلیم کا حصول ممکن ہو سکے ۔اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو سلیبس میں شامل کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ہمارے پڑھنے والے بچے اچھے مسلمان اور پاکستان کے مفید شہری بن سکیں ۔لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو سلیبس میں شامل کرنے کے باوجود نہ تو پاکستانی معاشرے کو ہم اچھے مسلمان فراہم کر رہے ہیں اور نہ ہی اچھے شہری ۔مجموعی طور پر پورا معاشرہ اس ناکامی کا ذمہ دار ہے کیونکہ تعلیم دینا تو اداروں کا کام ہے اور اگر تعلیمی ادارے اپنا کام سہی طریقے سے ادا نہیں کر رہے تو کیا ہم بطور والدین اپنے بچوں کی تربیت کر پا رہے ہیں؟کیا ان بچوں کو فیس اور دیگر لوازمات دینے کے بعد ہم بری الذمہ ہیں اگر ہم بچوں کی ٹرانسپورٹ ٫فیس جیب خرچ اور ٹیویشن فیس ادا کر رہے ہیں تو کیا ہماری ذمہ داری پوری ہو گئی ہے ؟ اس کا جواب نفی میں آئے گا یہ تمام لوازمات پورے کرنے بعد بچوں کی تربیت کرنا انہیں اچھائی برائی کے درمیان فرق بتانا اور ان کو وقت دینا سب سے اہم ہے ۔بدقسمتی سے ہم سب کچھ دے رہے ہیں سوائے اپنے وقت کے جو وقت ہم اپنے بچوں کو نہیں دیتے پھر وہ اپنا یہ وقت معاشرے کے ان کرداروں سے شئیر کرتے ہیں جو کہ بچوں کے بگاڑ کا باعث بنتے ہیں ۔ہمارےنظام تعلیم میں اسسمنٹ کا معیار صرف یہ ہے کہ بچے کو اپنے مضمون پر کتنی گرفت ہے یا پھر وہ مضمون میں کتنے مارکس حاصل کر رہا ہے چاہے یہ مارکس درست طریقے سے حاصل کرے یا پھر غلط طریقے سے ۔کیا ہم نے مارکس کے ساتھ اس بچے کا اخلاقی معیار بھی مانپا ؟ کہ اگر وہ اچھےمارکس حاصل کر رہا ہے تواس کے ساتھ ساتھ اس کا اپنے اساتذہ ٫کلاس فیلوز اور خاندان سے رویہ کس طرح کا ہے ؟وہ مارکس تو حاصل کر چکا اس نے یہ بھی پڑھ لیا کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے یاپھر اخلاقی طور پر برا عمل ہے لیکن کیا اس نے اپنی زندگی میں جھوٹ بولنا چھوڑا ہے یا پھر یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد بھی جھوٹ ہی بول رہا ہے؟ دوسری طرف نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں بھی ضروری ہیں تقریری مقابلے ٫ کھیلیں اور دیگر سرگرمیاں بچوں کے اعتماد میں اضافہ کرتیں ہیں ۔لیکن ہمارے ہاں سپورٹس گالا اور فن فئیر کے نام پر جو بیہودگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔سرکاری ادارے تو خیر کسی حد تک معاملات کو سنبھال ہی لیتے ہیں کیونکہ سرکاری اداروں کے سربراہان کو “حکام بالا “کی سرزنش کا بھی دھڑکا لگا رہتا ہے ۔نجی تعلیمی اداروں میں فن فئیر اور سپورٹس گالا کے حوالے سے کھلی چھوٹ دی جاتی ہے ۔کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نجی تعلیمی ادارے طلبہ کو بطور طلبہ ڈیل نہیں کرتے بلکہ بطور گاہک( کسٹمر )ڈیل کرتے ہیں ۔اور اپنے “گاہکوں “کو خوش کرنے کے لئے پھر ہر طرح کے اقدامات کو” فن فئیر ” اور “سپورٹس گالا” کا نام دیا جاتا ہے تاکہ گاہکوں کو کو ان کی مرضی کی” پراڈکٹس” فراہم کرکے انہیں راضی کر سکیں۔اس لئے نوجوان سنگرز نجی کالجز اور یونیورسٹیز میں سپورٹس گالا اور فن فئیر کے نام پر رقص سرود کی محفلیں سجانے میں سب سے آگے ہیں اور یہ ڈیمانڈز وہاں کے طلبہ کی ہے جس کی تکمیل ان اداروں کی مجبوری ہے ورنہ نجی کالجزاور یونیورسٹیز کے یہ “طلبہ نما گاہک ” ناراض ہو سکتے ہیں اور ان اداروں کو فیسوں کی مد میں معاشی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔بدقسمتی سے یہ سرطان پھیلتا ہوا اب ان سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز تک بھی پہنچ چکا ہے جہاں طلبہ کی اکثریت مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے ۔یہ درست بات ہے کہ مڈل کلاس گھرانوں سے طلبہ کی اکثریت کا تعلق ہے مگر وہ بھی تو سینے میں دل رکھتے ہیں اور اس طرح کی سرگرمیوں میں تفریح حاصل کرنا ان کی بھی خواہش ہے ۔ہمارے ہاں طبقاتی تقسیم بڑی واضح ہے ایک اپر کلاس ہے جس کا سلیبس انگلش میڈیم ہے اور ان کے بچے O level اور A level کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن اداروں میں یہ بچے پڑھ رہے ہیں ان کلاس رومز کا ماحول کسی Five Star ہوٹل سے کم نہیں کلاس رومز ائیر کنڈیشنڈ ہیں جب کہ دوسرا طبقہ مڈل کلاس ہے جس کا سلیبس اردو میڈیم ہے اور ان کے اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے جب کہ تیسرا طبقہ ان مدارس میں تیار ہو رہا ہے جو مذکورہ بالا دونوں طبقوں سے نالا ہے جدید تعلیم کو فحاشی کے زمرہ میں شمار کرتا ہے خصوصاً انگریزی ادب کو بے حیاء کی وجہ گردانتا ہے ۔یہ تعلیمی تفریق ہمارے معاشرے میں بھی تقسیم پیدا کر رہی ہے اگرچہ اس کو ختم کرنا مشکل ہے مگر اسے یکساں نصاب تعلیم کے ذریعے کم ضرور کیا جا سکتا ہے ۔بامقصد نصاب تعلیم مرتب کیا جائے اور “حادثاتی طور “پر شعبہ تعلیم میں آنے والے اساتذہ کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔گاہے بگاہے اساتذہ کے لئے ٹریننگ کا بندوست کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ آپ کی ذمہ داری آنے والے اساتذہ کی تعلیم وترتیب ہے ناکہ رقص سرود کی محفلوں کا انعقاد ۔جب تک مقاصد تعلیم کا تعین نہیں کیا جاتا تب تک ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے مراسلے جاری کرنا بے مقصد اور بے سود رہیں گے ۔
پروفیسر قیصر عباس!

قومی سلامتی کے اجلاس ، آرمی چیف نٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل عاصم ملک بھی پہنچ گئے. شرکاء کو بریفنگ دیں‌گے

اپوزیشن نے قومی سلامتی کمیٹی کے آج ہونے والے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔

آج کی اہم خبروں کی جھلکیاں ، قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس، پی ٹی آئی کا بڑا شرایط، کے پی: دہشت گردوں کے 3 تھانوں پر حملے، پولیس کی بروقت کارروائی، امن دشمن فرار</a>

50% LikesVS
50% Dislikes

مقاصد تعلیم اور فن فئیر ، پروفیسر قیصر عباس

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں