سلیم خان : جامع الصفات شخصیت، پارس کیانی ساہیوال، پاکستان
یہ کسی ایک فرد کی کہانی نہیں، یہ اس عہد کی روداد ہے جس میں زبانیں سرحدوں کی محتاج نہیں رہتیں، ادب جغرافیہ سے آزاد ہو جاتا ہے اور وابستگی صرف مٹی سے نہیں بلکہ معنی سے جڑ جاتی ہے۔ کیلینڈر کی ایک تاریخ نہیں، مگر وقت کے تسلسل میں ایک واضح موڑ ضرور تھا جب سلیم خان نے کراچی کی گہما گہمی سے نکل کر ہیوسٹن، ٹیکساس امریکا کی فضا میں قدم رکھا۔ اوائل فروری 2024 کا یہ سفر محض جغرافیائی نقل مکانی نہیں تھا، یہ اردو کے ایک سرگرم، متحرک اور بے چین قافلہ سالار کا نئے افق کی طرف بڑھنا تھا۔
سلیم خان اُن لوگوں میں سے ہیں جن کے لیے تعلیم محض اسناد کا نام نہیں، بلکہ شعور کی ذمہ داری ہے۔ ایم اے اردو اور ایم اے انگلش کی دوہری علمی بنیاد نے انہیں زبان کے صرف ایک رخ تک محدود نہیں رہنے دیا۔ وہ اردو کی روح کو بھی جانتے ہیں اور انگریزی کے عالمی تناظر کو بھی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا فکری دائرہ مقامی بھی ہے اور بین الاقوامی بھی، اور ان کی کاوشیں کسی ایک خطے یا گروہ تک محدود نہیں رہتیں۔
ان کی ادبی زندگی کا احاطہ کرنا آسان نہیں، کیونکہ یہ زندگی کسی ایک تنظیم، ایک فورم یا ایک بزم میں سمٹتی نہیں۔ انجمن ترویج زبان و ادب بین الاقوامی کی منتظمی ہو یا تفہیمِ فکرِ اقبال جیسے فکری کام کی نگرانی، مقالہ جات کی ترتیب ہو یا دریچہ ادب کے مختلف یونٹس کی قیادت، راولپنڈی، اسلام آباد، حافظ آباد، کراچی، کوئٹہ اور لاہور، ہر جگہ سلیم خان ایک ہی شناخت کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں: خاموشی سے کام کرنے والا، دوسروں کو آگے بڑھانے والا اور خود پس منظر میں رہنے والا منتظم۔
برطانیہ سے شائع ہونے والے شمارہ “مینارِ اردو” میں نائب صدر اور مرابطِ اساسی کی حیثیت سے ان کی خدمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کا اعتماد صرف مقامی حلقوں تک محدود نہیں۔ ماورا ورلڈ لٹریری فورم امریکہ کے تحت “ہمارے عہد کے سخنور، ہو یا بزمِ شاہین، اندازِ بیان اور، رسمی بات چیت، تحریکِ توازنِ اردو ادب، بزم اردو انٹرنیشنل کینیڈا، عالمی اردو ادب، سرخیل ادب، اردو جہاں، ابتدائے ادب، ادبی بیٹھک، اوراقِ ادب، قلم قافلہ، حصارِ ادب عالمی، یہ سب نام نہیں، یہ اس نیٹ ورک کی جھلک ہیں جو سلیم خان نے خلوص، اعتماد اور مستقل مزاجی سے قائم کیا۔ کسی بھی موضوع پر پی ڈی ایف کتب مہیا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ادب کو اشرافیہ کا شغل نہیں بناتے۔ “تعلیم سب کے لیے”، “امتحانات کی تیاری”،
“فیملی میگزین”، “ذوقِ ادب”، “اہلِ ذوق” اور “بزمِ زبان فہمی” جیسے پلیٹ فارم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ ادب کو زندگی کے قریب لانا چاہتے ہیں، عام قاری، طالب علم اور نئے لکھنے والے کے لیے قابلِ رسائی بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار نوجوان قلم کار انہیں اپنا پہلا سہارا، پہلا قاری اور پہلا رہنما مانتے ہیں۔
پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ان کی داستان کم متاثر کن نہیں۔ پچیس برس تک ایک ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی میں مارکیٹنگ ہیڈ کے ساتھ وابستگی، پھر موبائل ٹیلی کام سیکٹر میں بطور پراجیکٹ اور کنٹریکٹ مینیجر خدمات،یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ نظم و ضبط، منصوبہ بندی اور قیادت ان کی سرشت میں شامل ہیں۔ یہی انتظامی تجربہ ان کی ادبی سرگرمیوں میں بھی جھلکتا ہے، جہاں وہ جذبے کے ساتھ ساتھ نظام بھی قائم رکھتے ہیں۔
آج جب وہ ریٹائرمنٹ کی سادہ زندگی گزار رہے ہیں، تو یہ سادگی بے عملی نہیں بلکہ ارتکاز کی علامت ہے۔ ادب پرور ذوق و شوق، جو آج بھی پوری امنگ اور توانائی کے ساتھ موجود ہے، اس بات کی ضمانت ہے کہ سلیم خان کا سفر ابھی رکا نہیں۔ امریکہ منتقلی کے بعد بھی ان کی سرگرمیاں کم نہیں ہوئیں، بلکہ ایک نئے دائرے میں پھیل گئی ہیں۔
اب ان کی شناخت میں ایک اور اضافہ ہوا ہے: کالم نگاری۔ یہ اضافہ کسی حیرت کا باعث نہیں، کیونکہ جو شخص برسوں سے مکالمہ، تنظیم اور فکری رہنمائی کرتا آیا ہو، اس کا قلم بھی بالآخر براہِ راست قاری سے بات کرنے لگتا ہے۔ ان کے کالم وعظ نہیں، تجربے کی گفتگو ہوتے ہیں، شور نہیں، دلیل کی روشنی ہوتے ہیں؛ اور ذاتی نمود نہیں، اجتماعی شعور کی دعوت ہوتے ہیں۔
سلیم خان کی سب سے بڑی خوبی شاید یہی ہے کہ وہ ادارہ نہیں بنتے، ادارے بناتے ہیں ،ستارہ نہیں بنتے، آسمان سجاتے ہیں۔ اردو ادب کی یہ خدمت نہ کسی اعزاز کی محتاج ہے، نہ کسی تعارف کی۔ یہ خدمت خود اپنا تعارف ہے، اور یہی سلیم خان کی اصل پہچان۔
column in urdu, Multifaceted Personality




