گلگت بلتستان میں ویلفیئر کا فقدان ایک اجتماعی المیہ ، یوسف علی ناشاد، گلگت
گلگت بلتستان اپنی قدرتی خوبصورتی دلکش وادیوں اور برف پوش پہاڑوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے مگر اس حسین خطے کے اندر ایک کرب ناک خاموشی چھپی ہوئی ہے یہاں فلاحی سرگرمیوں اور عوامی بہبود کا کام نہ ہونے کے برابر ہے بالخصوص گلگت شہر میں اگر دیکھا جائے تو سماجی کاموں کی کوئی منظم شکل نظر نہیں آتی سرکاری سطح پر تو بات کرنا ہی فضول ہے کیونکہ یہاں کے اکثر ذمہ داران کا مقصد خدمت خلق نہیں بلکہ کرپشن کرو مال بناؤ کی سوچ کے گرد گھومتا ہے عوام کی فلاح ان کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہی ہمارے معاشرے میں سماجی شعور ابھی بیدار نہیں ہوا یتیموں غریبوں بیواؤں اور ضرورت مند طلبہ و طالبات کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی مضبوط ویلفیئر ادارہ موجود نہیں پورے گلگت بلتستان میں مختلف این جی اوز تو موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی حکومت کو ان اداروں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ فلاح کے نام پر کاروبار کرنے والے بے نقاب ہو سکیں میں ذاتی طور پر گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہوں قومی سوچ رکھنے والے ایک فرد کی حیثیت سے ہمیشہ اپنے خطے کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اسی قومی جدوجہد کے دوران جیل گیا مقدمات کا سامنا کیا مگر پیچھے نہیں ہٹا ہم نے حق پرستی کی راہ میں اپنی آسائشیں قربان کیں دولت شہرت اور عیش و آرام کی زندگی کو ہمیشہ حق کے مقابلے میں حقیر جانا یہی وجہ ہے کہ آج ذاتی حیثیت میں مالی مدد کرنے کے قابل نہیں مگر دل کی گہرائیوں میں ایک تڑپ ہمیشہ موجود رہتی ہے اکثر کوئی غریب مریض یتیم بچہ یا طالب علم فیس کے مسئلے میں آتا ہے تو ان کا دکھ اپنا لگتا ہے میں ان کے لیے سوشل میڈیا پر آواز اٹھاتا ہوں بغیر نام ظاہر کیے لوگوں تک پیغام پہنچاتا ہوں تاکہ کوئی مدد کر سکے کئی بار لوگوں نے تنقید بھی کی طعنے دیے مگر میں نے کبھی پروا نہیں کی کیونکہ نیت صاف ہو تو الزام بوجھ نہیں لگتے میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں احساس رکھنے والے زیادہ تر لوگ مڈل کلاس یا نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یہی لوگ تھوڑا بہت جو بن پڑے کرتے ہیں جبکہ صاحب حیثیت لوگ نظریں پھیر لیتے ہیں ان کے چہروں سے احساس مٹ چکا ہوتا ہے خوش نصیب وہ ہیں جن کے نصیب میں لکھا ہو کہ ان کا مال کار خیر میں خرچ ہو یہاں میں ایک ایسے شخص کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو واقعی نیکی کی روح کو سمجھتا ہے محترم لیاقت علی بھائی گلگت کے بڑے کاروباری حضرات میں سے ہیں مگر دل کے بہت نرم انسان ہیں وہ ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں خالی ہاتھ کسی کو واپس نہیں کرتے درویش صفت اور خوف خدا رکھنے والے ہیں میں جانتا ہوں کہ اگر وہ یہ تحریر پڑھیں گے تو شاید برا محسوس کریں مگر مقصد کسی کو مشہور کرنا نہیں بلکہ معاشرے کے اچھے پہلو کو دکھانا ہے تاکہ دوسروں میں بھی نیکی کا جذبہ جاگے کیونکہ اللہ فرماتا ہے کہ نیک امور میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لو محترم لیاقت بھائی کے بعد میں محترم مبارک حسین بھائی کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں وہ ہر سال رمضان کے مہینے میں درجنوں غریب گھرانوں کو راشن دیتے ہیں ضرورت مندوں کے مکانات تعمیر کرواتے ہیں بیماروں اور مستحق طلبہ کی مدد کرتے ہیں یہ سب انفرادی کوششیں ہیں جو قابل تعریف ہیں لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ ان انفرادی کوششوں کو اجتماعی شکل دی جائے ہمیں گلگت سطح پر ایک ایسا فلاحی ادارہ بنانا ہوگا جو رجسٹرڈ ہو شفاف طریقے سے کام کرے اور اندرون و بیرون ملک سے امداد حاصل کرکے حقیقی مستحقین تک پہنچائے امداد کا طریقہ ایسا ہونا چاہیے کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو مدد اس طرح دی جائے کہ لینے والا خود کو حقیر نہ سمجھے یہ فلاحی کام عبادت کی طرح ہونا چاہیے نہ کہ دکھاوے کے لیے ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں کیا جو ضرورت مندوں کی منظم مدد کرے یہاں اسماعیلی برادری کی مثال سب سے نمایاں ہے ان کے ادارے تعلیم صحت اور سماجی خدمت میں بہت آگے ہیں اسی لیے آج تک کوئی اسماعیلی فرد بھیک مانگتا دکھائی نہیں دیتا یہ بات ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ہمیں بھی اپنے معاشروں میں اسی طرز کا نظام بنانا ہوگا تاکہ اہل سنت اہل تشیع اور دیگر مسالک کے لوگ بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خدمت خلق کے میدان میں آگے بڑھیں اسلام ہمیں بھائی چارے اور ایثار کا درس دیتا ہے مگر ہم نے ان تعلیمات کو فراموش کر دیا ہے وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر اپنے شہر اپنے محلے اور اپنے گاؤں میں اجتماعی ویلفیئر نظام قائم کریں تاکہ کوئی یتیم بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے کوئی مریض علاج کے لیے در در نہ پھرے اور کوئی بیوہ یا غریب خاندان فاقوں کا شکار نہ ہو اگر ہم سب اپنے حصے کا دیا جلائیں تو یقین مانیے پورا گلگت بلتستان روشنی میں نہا سکتا ہے یہی وہ خواب ہے جس کی تعبیر اجتماعی احساس سے ممکن ہے
column in urdu, Lack of Welfare in Gilgit-Baltistan