خواتین کے لیے اسلامی تعلیمات کی اہمیت ، کرامت علی جعفری المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی
(طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَهٌ عَلَى کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَه)
جیساکہ حدیث رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے واضح ہے کہ علم کا حصول تمام مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرتا کہ مرد کے ساتھ عورت کو بھی علم حاصل کرنا چاہیے اور زندگی کے دوڑ میں زن و مرد کو ایک نقطہِ نظر سے ہی دیکھنا چاہئیے- جدید تعلیم اور فنون کو بھی مردوں اور عورتوں کو بہ قدر مناسب سیکھنا چاہیے یہ سب اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن ایک نظر سے دیکھا جائے تو عورت کو باقی تمام چیزیں آئے یا نہ،کمپیوٹر ،جدید تعلیم سے آگاہہی یا سائنسی علوم سے آشنائی ہو یا نہ،ورزش میں حصہ لے یا نہ انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کرے یا نہ لیکن اسلامی تعلیمات اور قرآنی علوم سے بہترین طریقہ سے آشنائی ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ عورت ہی ایسی ہستی ہے کہ جس کی بہترین تربیت اور اعلیٰ اسلامی تعلیم یعنی علومِ آل محمد سے صحیح آشنائی کے بعد جب اپنے معاشرے میں قدم رکھتی ہے تو سب سے پہلے ایک صالح بیٹی اپنی ماں باپ کے لیے کہ جس پر اور جس کے کردار پر ماں باپ فخر کرے دوسری مرحلے میں ایک بہترین ہمسفر اور دلی تسکین اپنے شوہر کے لیے اور تیسری مقام پر ایک بہترین ماں اپنے بچوں کے لیے۔ اور یہی تین مراحل ایک عورت کی زندگی کا تکاملی جائزہ ہے جن میں غور فکر سے عورت کی اصل تعلیم و تربیت کا علم معاشرے کے سامنے واضح اور روشن ہوتا ہے کہ کس عورت نے کونسی تعلیم حاصل کی اور کس تعلیم اور تربیت کا ثمر آج معاشرہ میں ہے مثال (صرف دانشگاہ والے) اور (علوم حوزوی) والوں کے درمیان آپ اپنے معاشرے میں یا تاریخ میں جایزہ لے ۔اس کے علاؤہ کسی بھی معاشرے میں عورت کا کردار کسی عمارت میں لگنے والی درمیانہ ستون کی سی ہے جس طرح اس عمارت کے ستون کے لیے سیمنٹ ، سریا اور دیگر مضبوط کرنے والے مواد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسلامی تعلیمات عورت کے لیے وہی سمینٹ اور سریہ کی طرح ہے اسلامی تعلیمات (علوم آل محمد)کے بغیر دوسرے علوم سے چند ایک اصطلاحات عورت کو یاد تو ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی کوئی جاب وغیرہ بھی لگے۔کسی میدان میں کار آمد بھی ثابت ہو لیکن اس کی اجتماعی زندگی میں وہ اسلامی تعلیمات اور تربیت کے بغیر ایسی ہے جیسے آپ نے ایک عمارت بناتے ہوئے اس کے درمیان کے ستون میں سمینٹ کے بجائے صرف ریت اور بجری کا استعمال کیا ہو۔ ایک عورت کا گود ہی بچے کا مدرسہ ہو اور زندگی کے ابتدائی مراحل سے ہی وہ اپنے بچے کی پرورش علم قرآن و اسلامی تعلیمات سے کرے تو بعید نہیں کہ ایسے معاشرے میں جرائم کی رجحانات کم ہو اور عمر رسیدہ بوڑھے والدین کے لیے اولڈ ہاؤس ڈھونڈ نے کے بجائے پاؤں پر سر رکھ کر ان کی ہر فرمائش پوری کی جائے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک پاکیزہ اور علوم قرآنی و تعلیمات آل محمد سے آشنا ماں کے گود سے ہی علامہ سید رضی،علامہ طباطبائی، آیت اللہ خمینی و امام خامنہ ای جیسے فرزندان اسلام نے جنم لیا ہے کہ جن کی مثال قابل ذکر ہے ان شخصیات کے بارے میں مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے علوم قرآنی و تعلیمات آل محمد سے سرشار پاکیزہ ماؤں کی کردار چھپی ہوئی ہیں۔لھذا با دست ادب عرض کرتا چلوں کی اپنے جگر کے ٹکڑوں (یعنی بچیوں کو ) کالجز اور یونیورسٹی کے تعلیم دے یا نہ دے لیکن علوم آل محمد سے ضرور سیراب کرائیں کیوں کہ ایک معاشرہ کی بنیادی اکائی عورت کی ذات ہے .
کرامت علی جعفری ۔
العباس ایجوکیشنل کمپلیکس سکردو کی خدمات، محمودہ عباس اسوہ گرلز کالج سکردو
کھیلوں کا میدان خالی، خوابوں کا جنازہ , گلگت بلتستان کے نوجوان کہاں جائیں؟ یاسر دانیال صابری
column in urdu, Importance Women education in Islam




