IMG 20251118 WA0098 0

کھلتارو وادی جہاں قدرت نے پاکستان کا مستقبل لکھ دیا ہے
یاسر دانیال صابری
سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کھلتارو وادی کے کھن میڈوز میں ایک جدید ایئر فیلڈ یا انٹرنیشنل معیار کے ہوائی میدان کے قیام کا امکان صرف کسی خیال یا خواہش سے نہیں، بلکہ عملی جانچ سے ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت کے لیے یہ کام مشکل نہیں۔ صرف ایک فیصلہ درکار ہے کہ متعلقہ وزیر یا سیکریٹری تعمیرات ایک بااختیار فوکل پرسن مقرر کرے، جو موقع کا ازخود معائنہ کرے، گوگل میپس کے ذریعے ابتدائی نقشہ دیکھے، زمینی سطح کا سروے کرے، اور ممکنہ تعمیرات کے حوالے سے پہلی تکنیکی رپورٹ فوری حکومت کے سامنے رکھے۔ یہی بنیادی قدم آگے کی منصوبہ بندی کا راستہ کھولے گا۔
کھلتارو وادی کا ذکر آئے تو ذہن میں سب سے پہلے اس کی خاموش فضائیں، ہریالہ دامن، کھلے میدان، برف سے چھتی پہاڑیاں اور شفاف پانی کے بہتے چشمے ابھر آتے ہیں۔ گلگت سے زیادہ دور نہیں، یہ وادی قدرت کی ایسی نعمتوں سے مالامال ہے جن کی مثال کم ملتی ہے۔ مسئلہ صرف رسائی کا ہے روڈ بہتر ہو جائے اور موبائل سروس کی مستقل بحالی ہو تو یہ وادی چند برسوں میں پاکستان کا سب سے نمایاں سیاحتی اور تعلیمی مرکز بن سکتی ہے۔
ہومل ،خایے اور پامیر رئجوت جگہوں تک جاتا پیدل راستہ اگر حفاظتی اصولوں کے تحت ایک درست سڑک میں تبدیل کیا جائے تو یہ پورے خطے کا مرکزی سیاحتی کارڈور ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ راستہ جغرافیائی لحاظ سے بھی بے حد اہم ہے۔ پہاڑوں کے بیچ ریشمی انداز میں پھیلا ہوا یہ ٹریک، جنگلات، چشموں اور وسیع کھلے میدانوں کے ساتھ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے ایک مکمل تجربہ بن سکتا ہے۔ روڈ کی تعمیر سے عام لوگوں کی آمدورفت آسان ہوگی، اور مقامی کاروبار کی بنیاد مضبوط ہو گی۔ رہائش، کھانے پینے کے مراکز، گائیڈ سروسز اور دستکاری کی دکانیں آنے والے برسوں میں ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار پیدا کر سکتی ہیں۔
کھن میڈوز کی خصوصیات اسے منفرد بناتی ہیں۔ اس کی سطح نسبتاً ہموار ہے، رقبہ وسیع ہے، اور اردگرد کے پہاڑی حصے اس قدرتی میدان کو ہر طرف سے محفوظ بناتے ہیں۔ ان خصوصیات کی وجہ سے یہاں ایک انٹرنیشنل معیار کا کرکٹ اسٹیڈیم با آسانی بن سکتا ہے۔ یہ صرف ایک کھیل کا میدان نہیں ہوگا بلکہ سالانہ ایونٹس، ٹورنامنٹس، ٹریننگ کیمپس اور فیسٹیولز کے ذریعے علاقے کی معاشی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ کرے گا۔
اسی جگہ پر مناسب انجینئرنگ سے ایک چھوٹا مگر فعال ایئر فیلڈ بھی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ فوری طور پر بڑے ایئرپورٹ کی شکل نہیں اختیار کرے گا، مگر ایک معیاری رن وے، لینڈنگ اسٹرپ، اور بنیادی سہولیات سے لیس ایئر فیلڈ سیاحت، ہنگامی طبی رسپانس، حکومتی سرویلنس، اور کارگو سپلائی میں انقلاب لا سکتا ہے۔ اس طرح یہ وادی ملک کے بڑے شہروں سے براہِ راست جڑ سکتی ہے۔
تعلیم کے حوالے سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے یہ ثابت کیا ہے کہ فطرت کے قریب تعلیمی مراکز بچوں کی ذہنی نشوونما میں حیرت انگیز مثبت تبدیلی لاتے ہیں۔ شہروں کا شور، آلودگی اور ذہنی دباؤ بچوں کی توجہ کم کرتے ہیں، تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کرتے ہیں۔ کھلتارو جیسی پرسکون، صاف اور فطری جگہ میں اگر اسکول، کالج یا ریسرچ سینٹر قائم کیے جائیں تو یہ نسلِ نو کے لیے علم اور صحت دونوں میں بہترین ثابت ہوگا۔ ہاسٹلز، لیبارٹریز، لائبریریز اور اوپن ایئر کلاس رومز سب کچھ اس ماحول میں ایک نئی تعلیمی روایت کا آغاز کر سکتے ہیں۔
اس طرح کے منصوبوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مقامی آبادی بھی براہ راست اس ترقی کا حصہ بنے گی۔ مقامی لوگ گائیڈز، ورک فورس، کنسٹرکشن، ہوٹل مینجمنٹ، نقل و حمل اور سیاحتی خدمات میں ملازمتیں پائیں گے۔ دستکاری، روایتی خوراکیں اور مقامی مصنوعات ملک بھر میں مشہور ہو سکتی ہیں۔ یوں کھلتارو ایک مکمل “لوکل اکنامک زون” بن سکتا ہے
جہاں ماحول کی حفاظت اور معاشی ترقی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلیں۔
ترقیاتی عمل میں ماحول کی حفاظت بنیادی شرط ہے۔ کھلتارو جیسے نازک ماحولیاتی خطے میں کسی بھی بڑے منصوبے سے پہلے جامع ماحولیاتی اثرات کا مطالعہ ضروری ہے۔ چشموں اور جنگلی حیات کا قدرتی توازن برقرار رکھنا، پانی کے قدرتی بہاؤ کو متاثر نہ ہونے دینا، جنگلات کی حفاظت، اور پائیدار تعمیراتی مواد کا استعمال
یہ سب اقدامات اس وادی کے حسن کو برقرار رکھیں گے۔ ترقی اور ماحول کو ایک دوسرے کا مخالف نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ دونوں کو ہم آہنگی سے آگے بڑھانا ہی اصل کامیابی ہے۔صحت کے نقطۂ نظر سے بھی کھلتارو بے حد موزوں خطہ ہے۔ صاف فضا، قدرتی غذا، پانی کے چشمے، اور کھلے میدان ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بے حد مفید ہیں۔ شہروں کے مقابلے میں یہاں نہ شور ہے، نہ دھواں، نہ ذہنی دباؤ۔ اگر یہاں رہائشی تعلیمی منصوبے بنائے جائیں تو بچوں کی صحت، ذہنی یکسوئی اور قوتِ مدافعت بڑھنے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کھیل، ہائیکنگ اور فطری سرگرمیوں کے ذریعے صحت مند طرزِ زندگی اپنائے گی۔
کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتا جب تک مقامی آبادی اس کا حصہ نہ بنے۔ کھلتارو کے لوگ میزبانی، ہمت، محنت اور خلوص میں مثال ہیں۔ انہیں منصوبہ بندی کے آغاز سے شامل کیا جائے گاان سے رائے لی جائے، ان کے خدشات دور کیے جائیں، ان کی زمین، ثقافت اور رواج کا احترام کیا جائے۔ جب کمیونٹی ساتھ کھڑی ہوتی ہے تو ترقی پائیدار بنتی ہے اور تنازعات جنم نہیں لیتے۔
اقتصادی اعتبار سے یہ علاقہ مستقبل میں ایک بڑے معاشی حب کی حیثیت رکھ سکتا ہے۔ سیاحت بڑھے گی تو کاروبار بڑھے گا۔ کاروبار بڑھے گا تو آمدنی بڑھے گی۔ مقامی لوگوں کی زندگی بہتر ہوگی تو پورا گلگت بلتستان ترقی کرے گا۔ حکومت چھوٹے کاروباری قرضے، تربیتی مراکز اور ٹیکنیکل سکل پروگرامز کے ذریعے کھلتارو کو ایک عملی ماڈل بنا سکتی ہے۔جسے دوسرے خطوں میں بھی اپنایا جا سکے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایک جامع اسٹریٹجک پلان تیار کرے، جس میں شامل ہوں ابتدائی فزیکل ویریفیکیش گوگل میپس، ڈرون سروے، اور زمینی مشاہدہ ماحولیاتی اثرات کا جائزہ بنیادی ڈھانچے کی مرحلہ وار بہتری کمیونٹی انگیجمنٹ ٹرانسپورٹ، بجلی اور انٹرنیٹ کی بحالی اور آخر میں بڑے منصوبے جیسے اسپورٹس کمپلیکس اور ایئر فیلڈ
اگر یہ کام ترتیب وار ہو تو پانچ سال میں کھلتارو بدلے ہوئے نقشے کے ساتھ سامنے آ سکتا ہے۔
کھلتارو صرف ایک وادی نہیں یہ مستقبل کا دروازہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قدرت نے پاکستان کے لیے امکانات کے درجنوں دروازے کھول رکھے ہیں۔ کرنے کا کام صرف اتنا ہے کہ ہم ان امکانات کو دیکھنے کی ہمت کریں، ان پر یقین کریں، اور انہیں حقیقت میں بدلنے کے لیے عملی قدم اٹھائیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اس وادی کی خاموشی میں چھپی پکار کو سنیں اور اسے ایک روشن مستقبل دی
ایسا مستقبل جو نسلوں تک فخر کر ساتھ یاد رکھا جائے۔وسلام

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!
50% LikesVS
50% Dislikes

کھلتارو وادی جہاں قدرت نے پاکستان کا مستقبل لکھ دیا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں