column in urdu, Gilgit baltistan issues 0

لٹکا ہوا گلگت بلتستان، یوسف علی ناشاد گلگت
آپ نے وہ محاورہ ضرور سنا ہوگا کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا اور کسی انسان کو درخت یا کسی اونچی جگہ پر لٹکتے دیکھا ہوگا اور سیڑھی کے ذریعے یا ہیلی کاپٹر پر چڑھتے گرتے دیکھا ہوگا اور پیراشوٹ سے اترتے دیکھا ہوگا اور مکڑی کو اپنے جالے میں لٹکتے دیکھا ہوگا مگر شاید آپ نے یہ کبھی نہیں سنا ہوگا کہ پورا ایک علاقہ لٹک جائے اور وہ بھی 77 سے 78 سال تک یہ سچائی 1947 سے شروع ہوتی ہے جب کرنل حسن، بابر خان، شاہ خان، صوبیدار فداء علی اور دیگر ہیروز نے اپنے بہادر ساتھیوں کے ساتھ ان بلند و بالا پہاڑوں اور خطرناک کھائیوں میں ناقابلِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ یقین جنگ لڑی اور ڈوگرہ کے سخت تسلط سے گلگت بلتستان کو آزاد کرایا
ناکافی اسلحہ، خوراک اور امونیشن کے باوجود یہ جنگ بہادری اور قربانی کی ایسی مثال بنی کہ آج بھی تاریخ اسے یاد رکھتی ہے آزاد ہونے کے فوراً بعد اندرونی اختلافات نے جنم لیا اور مقامی راجوں اور جنگ کے ہیروز کے درمیان اعتماد کمزور ہوا جب پاکستان کو اس صورتحال کی اطلاع ملی تو سردار عالم نامی تحصیلدار بھیجا گیا اور یہاں دو نظریات ابھرے ایک آزاد ریاست کے حق میں اور دوسرا پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں سولہ دن تک یہ علاقہ آزاد ریاست جیسا محسوس ہوا مگر بالاخر اکثریت نے پاکستان کے ساتھ ملنے کا انتخاب اس سوچ کے ساتھ کیا کہ ایک نئے مسلم ملک میں شمولیت سے ہمارے مفادات بہتر ہوں گے اور ترقی کے راستے کھلیں گے
یہ الحاق زبانی طور پر ہوا اور کسی مکمل دستاویز یا آئینی عمل کا سلسلہ قائم نہ ہو سکا بعد میں بیوروکریسی اور فوجی نمائندے آئے اور کئی آزادی کے ہیروز کو مختلف اداروں میں شامل کیا گیا جیسے کرنل مرزا حسن دوبارہ سروس میں آئے اور بابر خان کو پولیس میں لیا گیا مگر عوام سادہ لوحی اور مذہبی روایات کے باعث یہ توقع کرتے رہے کہ جلد باقاعدہ صوبائی یا آئینی حیثیت مل جائے گی انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ خطہ آئینی طور پر جموں و کشمیر کا حصہ تھا اور 13 اگست 1948 کی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں یہ علاقہ متنازعہ قرار دیا گیا ہے
وقت گزرا اور جب بھی پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی بڑھی تو گلگت بلتستان کا جغرافیہ سکڑتا رہا 1965، 1971 اور 1999 کی جنگوں اور دیگر جھڑپوں کے دوران بعض علاقے کنٹرول تبدیل ہوتے رہے یوں وہ علاقہ جو ہمارے بزرگوں نے قربانی دے کر آزاد کروایا تھا رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا اور اس کے باوجود جدید قوتیں اور وسائل آئے تو بھی اس خطے کی حفاظت اور عوامی فلاح پر مناسب توجہ نہ دی گئی
گلگت بلتستان کو طویل عرصے تک بے نام شمالی علاقہ کہا گیا مگر عوامی جدوجہد کے بعد اس کو شناخت ملی مگر بیانیے کی جنگ بدستور جاری رہی بھارت از روز اول دعویٰ کرتا آیا ہے کہ یہ اس کا اٹوٹ انگ ہے اور عالمی سطح پر بیانیے کی تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ کس موقف کی بنیاد مضبوط ہے اسی دوران یہاں کے عوام مسلسل نظر انداز کئے گئے اور وسائل کے باوجود بنیادی سہولیات نہ مل سکیں نہ میڈیکل کالج قائم ہوا نہ پانی اور بجلی کے مسائل کا حل نکالا گیا لوگوں کو ریکارڈ لوڈشیڈنگ برداشت کرنی پڑی اور معیار زندگی بہتر بنانے کی بجائے غیر معیاری ترقیاتی کام عوام پر ٹھونس دئیے گئے
سڑکیں زیر زمین پائپ بچھانا یا دیگر ترقیاتی کام اکثر غیر معیاری رہے اور پینے کے صاف پانی کو آلودہ کر کے فراہم کیا گیا اس قسم کے رویے نے عوام میں بےزاری پیدا کی اور کہیں کھلے عام تو کہیں اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے اگر یہ رویہ جاری رہا تو پاکستان کے لئے دیرپا نقصان کا امکان ہے
داسو، دیامر، اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے جن پر ملک کا روشن مستقبل منسوب کیا جاتا ہے اسی خطے کی زمین سے گزر کر بنتے ہیں چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوستی بھی اسی جغرافیے کے ذریعے مربوط ہے اس لئے حکومت کو مقامی حقوق، شراکت اور مفادات کو نظر میں رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ مستقبل میں اس کا خمیازہ بھاری پڑ سکتا ہے
اب جب گلگت بلتستان کے معدنی وسائل اور دیگر مواقع کی بات آتی ہے تو آئینی پیچیدگیوں کا حوالہ دیا جاتا ہے اور جب وسائل کی برآمد یا فروخت کرنی ہو تو وہ پیچیدگیاں غائب ہو جاتی ہیں یہ تضاد واضح طور پر ناانصافی ہے اور اس طرز عمل سے یہاں کے لوگوں کا اعتماد مزید کمزور ہو رہا ہے
اب بھی وقت ہے کہ ریاستی رویہ میں توازن لایا جائے اور مساوات پر مبنی عمل اپنایا جائے عوامی مسائل کو حل کر کے معیار زندگی بہتر بنایا جائے تاکہ لوگ اپنے آپ کو ملک کا فعال حصہ محسوس کریں اور قومی ترقی میں بھرپور حصہ ڈال سکیں
اپیل برابری کی بنیاد پر، حقوق اور مواقع کی مساوی تقسیم کے لئے ہے نہ جھک جانے کی فریاد کے لئے، یہاں کے باشندوں کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں وہی حقوق اور وہی مواقع ملیں جو کسی دوسرے حصے میں دستیاب ہیں اور اس کے عوض وہ اپنے مستقبل اور اس سرزمین کی حفاظت میں اپنا حصہ دیتے رہیں گے
گلگت بلتستان کب تک لٹکا رہے گا یہ سوال محض الفاظ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے عوام کی آوازوں پر توجہ دیجیے اور مساوات کی بنیاد پر پالیسیاں نافذ کیجیے تاکہ یہ خطہ ایک بار پھر لٹکا ہوا محسوس نہ کرے بلکہ ملک کے استحکام اور ترقی کا فعال ستون بنے
column in urdu, Gilgit baltistan issues

50% LikesVS
50% Dislikes

لٹکا ہوا گلگت بلتستان، یوسف علی ناشاد گلگت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں