کھیلوں کا میدان خالی، خوابوں کا جنازہ , گلگت بلتستان کے نوجوان کہاں جائیں؟ یاسر دانیال صابری
ایک کامیاب کھلاڑی وہ سفیر ہوتا ہے جو بغیر بولے اپنے وطن کی عزت بڑھاتا ہے۔
گلگت بلتستان میں اچھے کھیلوں کے گراؤنڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے نوجوان مایوسی شکار ہے آج شہر کے گلی کوچوں میں بے مقصد گھومتے ہیں۔ جس سے نوجوانوں کا ٹیلنٹ ضائع ہونے کے ساتھ جسمانی بیماریاں بھی لاحق ہوتی ہے ایک مفکر نے کہا ہے جس علاقے میں کھیل کے میدان ویران ہونگے اس علاقے کے اسپتال آباد ہونگے اور جس علاقے میں کھیل کے میدان آباد ہونگے وہاں کے اسپتال ویران ہونگے۔اس کے پیش نظر کھیل صحت مند معاشرے کی تشکیل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے
گلگت بلتستان میں کھیلوں کی صورتحال ایک خاموش المیہ بن چکی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، لیکن اس ٹیلنٹ کو جِلا دینے والے میدان، کوچنگ سینٹرز، اور ادارے ناپید ہیں۔ حکومت کے پاس اعداد و شمار ہیں، بجٹ کی لائنیں ہیں، مگر جذبہ اور نیت نہیں۔ اسپورٹس کے نام پر ہر سال خطیر فنڈز آتے ہیں، لیکن نتیجہ صفر۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ فنڈز کھائے جائیں، مگر میدان خالی رہیں؟
آج اگر کوئی نوجوان کرکٹ، فٹبال یا والی بال میں آگے بڑھنا چاہے تو سب سے پہلی رکاوٹ ’’میدان‘‘ ہوتی ہے۔ پریکٹس کے لیے جگہ نہیں، رہنمائی کے لیے کوچ نہیں، اور حوصلہ افزائی کے لیے ادارہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک گلگت بلتستان سے چند ناموں کے سوا کوئی کھلاڑی قومی یا بین الاقوامی سطح پر نہیں پہنچ سکا۔ جو پہنچے بھی، وہ اپنی محنت کے سہارے گئے، نظام کی مدد سے نہیں۔کیا یہ علاقے کے نوجوانوں کے ساتھ ظلم نہیں ۔
یہ صورتحال اس بات کی تصدیق ہے کہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو منظم منصوبہ بندی سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہاں کے اسپورٹس ڈپارٹمنٹ کی کارکردگی اگر دیکھی جائے تو مایوسی ہی مایوسی ہے۔ کبھی کبھار کوئی ’’کھیل میلہ‘‘ لگا کر فوٹو سیشن ہو جاتا ہے، شاید۔اخبارات میں تصاویر چھپتی ہیں، لیکن اس کے بعد پھر وہی خاموشی۔ میدان خالی، بجٹ ختم، اور خواب دفن۔یہ کیا معاجرہ ہے
کھیلوں کے میدان صرف زمین کے ٹکڑے نہیں ہوتے، یہ کسی معاشرے کی صحت، نظم، اتحاد اور تربیت کی علامت ہوتے ہیں۔ جو قومیں اپنے نوجوانوں کے لیے میدان آباد رکھتی ہیں، ان کے ہسپتال خالی رہتے ہیں، اور جو قومیں میدان ویران رکھتی ہیں، ان کے اسپتال، جیلیں اور قبرستان آباد ہو جاتے ہیں۔ افسوس کہ ہم نے دوسری سمت کا انتخاب کیا۔
گلگت بلتستان کے کئی اضلاع میں قدرتی طور پر ایسے مقام موجود ہیں جو کسی بھی لحاظ سے انٹرنیشنل معیار کے اسٹیڈیم بن سکتے ہیں۔ نگر میں ایک شاندار قدرتی میدان ہے، جہاں تھوڑی سی توجہ دی جائے تو قومی سطح کا کرکٹ گراؤنڈ بن سکتا ہے۔ حراموش وادی کھلتارو ریجوت، کھلتارو “کھن” میں بھی ایسی زمینیں ہیں جہاں کرکٹ، فٹبال اور والی بال کے لیے گراؤنڈز بنائے جا سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ خواب کون پورا کرے گا؟انشاللہ حراموش یوتھ اس پر کام کریں گی کیا یہ ذمہ داری صرف عوام کی ہے؟ یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو مثبت سمت دے۔ جب نوجوانوں کے لیے میدان بند ہوں، جب کھیلوں کی سرگرمیاں ختم ہوں، جب کوچنگ اور تربیت کے دروازے بند ہوں تو پھر یہی توانائی منفی سمت اختیار کرتی ہے۔ یہی نوجوان نشے، بے راہ روی، اور جرم کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
کھیل صرف جسمانی صحت کا ذریعہ نہیں بلکہ ذہنی سکون اور نفسیاتی توازن کا بھی ضامن ہیں۔ ایک نوجوان جب روزانہ کسی کھیل میں حصہ لیتا ہے، تو وہ اپنی توانائی کو نظم و ضبط، صبر، تعاون اور ٹیم ورک میں ڈھالتا ہے۔ یہی صفات بعد میں اس کے کردار، زندگی اور قوم کی تعمیر میں کام آتی ہیں۔بدقسمتی سے، گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی یہ توانائی ضائع ہو رہی ہے۔ صبح سے شام تک ایک ہی موبائل، سوشل میڈیا اور بے مقصد گفتگو میں گم ہے۔ وہ کھیل جو کبھی پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر جذبہ بن کر دوڑتے جس میں لوکل کھیلیں شامل تھے، آج ڈیجیٹل بے عملی میں دفن ہو گئے ہیں۔حکومت کی ترجیحات میں کھیل شامل ہی نہیں۔ یہاں بجٹ سڑکوں، دفاتر اور تقریبات پر خرچ ہوتا ہے، مگر نوجوانوں کے لیے کھیلوں کے مواقع پیدا کرنے پر نہیں۔ اگر حکومت چاہے تو ہر ضلع میں ایک مکمل اسپورٹس کمپلیکس بنانا مشکل نہیں۔ چند کروڑ روپے کے منصوبے، جو اکثر کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں، اگر کھیلوں کی ترقی میں لگائے جائیں تو پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے بھی مواقع کی سخت کمی ہے۔ گلگت بلتستان کی بچیاں تعلیم، سماجی خدمت، اور فکری میدان میں تو نمایاں ہو رہی ہیں، مگر کھیلوں میں ان کے لیے راستے بند ہیں۔ اگر حکومت خواتین کے لیے علیحدہ کوچنگ سینٹرز، کرکٹ گراؤنڈز اور ٹورنامنٹس منعقد کرے تو یقیناً وہ بھی قومی ٹیموں کا حصہ بن سکتی ہیں۔گگت بلتستان کے نوجوانوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ صرف شکایت کر کے کچھ نہیں بدل سکتے۔ اگر حکومت خاموش ہے تو عوام کو بولنا ہوگا، اٹھنا ہوگا، اپنے علاقوں میں کھیلوں کو زندہ کرنا ہوگا۔ کمیونٹی سطح پر کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جائیں، نوجوان خود فنڈز جمع کریں، مقامی میدان آباد کریں۔جس طرح کچھ نوجوان سرگرم عمل ہے کیونکہ تبدیلی ہمیشہ عوامی سطح سے شروع ہوتی ہے۔یوتھ انقلاب لا سکتے ہیں کھیلوں کے فروغ سے نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی بھی پیدا ہوتی ہے۔ ایک میدان وہ جگہ ہے جہاں ذات، برادری، زبان، اور علاقے کی تفریق مٹ جاتی ہے۔ وہاں صرف ایک چیز اہم ہوتی ہے کارکردگی۔ یہی کھیل کا حسن ہے کہ یہ انسانوں کو برابر کرتا ہے۔ہار جیت مشکلات کو فیز کرنے کا ہنر سکھاتا ہے جس سے انسان میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔کاش ہمارے حکمران یہ سمجھ پاتے کہ کھیلوں کی ترقی دراصل ذہنی اور اخلاقی ترقی کا راستہ ہے۔ کھیل انسان کو صبر، برداشت اور حوصلہ سکھاتا ہے۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو ایک اچھے شہری کے لیے لازم ہیں۔
آج اگر گلگت بلتستان میں ہر ضلع میں ایک جدید اسپورٹس کمپلیکس بن جائے، نوجوانوں کے لیے کوچنگ پروگرام شروع ہو جائیں، اسکولوں اور کالجوں میں اسپورٹس لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے، تو یقین کریں یہ خطہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے نقشے پر ایک نئی پہچان بنا سکتا ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ میڈیا اور تعلیمی ادارے کھیلوں کو محض تفریح کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ اسے قومی خدمت کا ذریعہ سمجھیں۔ ایک کامیاب کھلاڑی وہ سفیر ہوتا ہے جو بغیر بولے اپنے وطن کی عزت بڑھاتا ہے۔
ابھی بھی وقت ہے۔ گلگت بلتستان کی حکومت، وزرا، اور عوامی نمائندے اگر واقعی نوجوانوں کی فکر رکھتے ہیں تو فوری طور پر کھیلوں کے منصوبے شروع کریں۔ بجٹ کی شفاف تقسیم کو یقینی بنائیں، کرپشن کے دروازے بند کریں، اور نوجوانوں کو مواقع دیں۔
کھیلوں کے میدان خالی ہوں تو دل بھی خالی ہو جاتے ہیں۔ جذبہ، حوصلہ، اور عزم میدانوں سے ہی جنم لیتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ ویرانیاں ختم نہ کیں تو آنے والی نسلیں نہ صرف جسمانی طور پر کمزور بلکہ ذہنی طور پر بھی ناتواں ہوں گی۔
یاد رکھیے، ہم بلتی ہم چلاسی ہم گلگتی ہم غزری ہم نگری ہم ہنزائی ہم بگورو ہم حراموشی ہم استوری ہم گلگت بلتستان وہ پہاڑوں کے بیٹے جب میدان میں اترتے ہیں تو دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ وہ قوت، وہ ہمت، وہ جنون جو ہمارے اندر ہے، اسے اگر مثبت سمت دی جائے تو ہم گلگت بلتستان کے نوجوان دنیا بھر میں جی بی اور پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
آخر میں، میری یہ اپیل صرف حکومت سے نہیں بلکہ ہر اس شخص سے ہے جو گلگت بلتستان کے مستقبل سے محبت رکھتا ہے۔
کھیلوں کے میدان آباد کریں۔ نوجوانوں کو موقع دیں۔
یہی وہ سرمایہ ہے جو کل ہمارے ملک کی پہچان بنے گا۔
آؤ،یارو دوستو! کھیلوں کے میدان آباد کریں، تاکہ ہمارے خواب دفن ہونے کے بجائے حقیقت بن جائیں۔
تحریر یاسر دانیال صابری
کہانی: کزن دوست، شمائل عبداللہ، گوجرانوالہ
اسکردو برف پوش پہاڑوں کی وادی، سجیلہ بتول اسوہ گرلز کالج سکردو
پاکستان کا بھارت سے ملحقہ فضائی حدود آئندہ 2 روز مخصوص اوقات میں بند رکھنے کا فیصلہ




