گلگت بلتستان کے تعلیم یافتہ نوجوان اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری ، پانچ سالہ مایوسی کی کہانی، انعام بیگ
گزشتہ پانچ سال گلگت بلتستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ناانصافی، محرومی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا دور ثابت ہوئے۔
بی پی ایس 7 سے 14 تک کی کسی بھی نئی بھرتی کا اعلان نہیں ہوا،
گلگت بلتستان کمپیٹیٹیو ایگزامینیشن (GBCE) کا نظام مکمل طور پر غیر فعال رہا،
کوئی ٹیسٹنگ سروس سسٹم قائم نہ ہو سکا،
اور میرٹ کا تصور صرف نعروں تک محدود رہا۔
گلگت بلتستان میں ہزاروں نوجوان ڈگریاں لیے روزگار کی تلاش میں دربدر پھر رہے ہیں۔
نہ نئی آسامیوں کا اعلان ہوا،
نہ شفاف امتحانی نظام متعارف کروایا گیا،
جس کے نتیجے میں بے روزگاری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
جو بھرتیاں ہوئیں، وہ بھی میرٹ کے بجائے سفارش، تعلقات، اور سیاسی دباؤ پر مبنی تھیں۔
قابل اور محنتی امیدواروں کو نظر انداز کیا گیا،
جبکہ نااہل افراد کو مواقع فراہم کیے گئے۔
یہ رجحان نوجوانوں کے اعتماد کو بری طرح مجروح کر رہا ہے۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام ناانصافیوں کے باوجود نوجوان طبقہ خاموش رہا۔
نہ کوئی اجتماعی احتجاج ہوا،
نہ کسی تنظیم نے ان کے مسائل کو سنجیدگی سے اٹھایا۔
یہ خاموشی حکمرانوں کے لیے اجازت نامہ بن گئی کہ وہ مزید بے حسی دکھاتے رہیں۔
گلگت بلتستان کے نوجوان تعلیم یافتہ ضرور ہیں،
لیکن ان کے لیے نہ تربیتی ادارے موجود ہیں،
نہ انٹرن شپ یا روزگار کے پروگرامز،
اور نہ ہی عملی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع۔
پانچ سالہ بے روزگاری، ناانصافی اور ادارہ جاتی ناکامی نے
گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے خوابوں کو چکناچور کر دیا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ نوجوان شعور، اتحاد اور عزم کے ساتھ
میرٹ پر مبنی نظام، روزگار کے مواقع، اور باعزت مستقبل کے لیے متحد ہو کر آواز بلند کریں
column in urdu, Educated Youth of Gilgit-Baltistan and Rising Unemployment
کراچی میں ای چالان کا آغاز، صرف 6 گھنٹوں میں سوا کروڑ روپے سے زائد کے چالان
خواتین کے لیے اسلامی تعلیمات کی اہمیت ، کرامت علی جعفری المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی




