کتاب :خواب سے تعبیر تک ، عبدالحفیظ شاہد
لفافہ کھولتے ہی پہلی نظر جس چیز پر پڑی، وہ کتاب کا دل موہ لینے والا سرورق تھا۔ نیلے آسمان تلے بلند پہاڑوں کے سامنے سیڑھی کے ساتھ کھڑا ایک انسان واضح کرتاہے کہ خواب محض نیند کا حصہ نہیں بلکہ ایک مشن ہوتے ہیں جن کی تعبیر محنت، حوصلےاور راستہ تلاش کرنےسے جڑی ہوتی ہے۔ ٹائٹل دیکھ کر ہی انسان چشمِ تصور سے ان خوابوں کے سفر پر جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے جہاں بلندیوں کے پیچھے چھپے حوصلوں اور سچائیوں کا جہان آباد ہے.
ٹائٹل سے محسوس ہوتا ہےکہ یہ صرف خیالات یا تصوراتی بات نہیں، بلکہ
خواب دیکھنے سے لے کر انہیں حقیقت میں بدلنے تک کا ایک سفر ہے ۔ سیڑھی یہاں محنت، حوصلے اور راستے کی علامت ہے، جبکہ پہاڑ مشکلوں اور چیلنجز کا استعارہ ہیں ۔
لفظ جب دل سے نکلیں اور کاغذ پر دھڑکن بن کر اتر آئیں تو وہ افسانے کہلاتے ہیں، اور جب ایسے افسانے یکجا ہو کر ایک کتاب کی صورت اختیار کر لیں، تو وہ محض صفحات کا پلنده نہیں رہتی، بلکہ احساسات و مشاہدات کا ایک مجموعہ بن جاتی ہے۔ زیرِ نظر کتاب بھی ایک ایسی ہی شاندار تخلیق ہے، جو قاری کی تمام حسیات کو جگادیتی ہے۔ ہر افسانہ جیسے اپنے اندر ایک مکمل کائنات سموئے ہوئے ہے، جہاں جذبات کے احساسات، دکھ سکھ کی دھوپ چھاؤں ہے اور زندگی کی ان کہی کہانیاں ہیں۔
محترمہ آمینہ يونس بلتستانی کے افسانے پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ہمارے ہی دل کی کوئی پرانی، بھولی بسری یاد بات دوہرارہی ہوں۔ ان کی تحریر میں زندگی کے دکھ سکھ، رشتوں کی گرہیں، وقت کے تلخ سچ اور انسان کی باطنی کشمکش اس خوبصورتی سے بیان ہوئے ہیں کہ قاری خود کو ہر کہانی کے کرداروں میں موجود تصور کرتا ہے ۔
آمینہ کردار تراشتی نہیں ان كو جینا بھی سکھاتی ہیں۔ ان کی زبان سادہ مگر اثر انگیز ہے۔
آمینہ یونس بلتستانی صرف لکھتی نہیں ہیں، وہ خواب بنتی ہیں اور قارئین کے دل پر اپنی سادگی، سچائی اور حوصلہ افزا لہجے سے نقش چھوڑ جاتی ہیں۔ ان کی تحریر میں کوئی تصنع، کوئی دکھاوا نہیں ہے ۔ “خواب سے تعبیر تک” ان کے اندر کے انسان، خواب دیکھنے والے دل، اور زندگی سے سیکھنے والی روح کا عکس ہے۔
یہ کتاب خوابوں کے پیچھے چھپی جدوجہد، امید، صبر اور زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کو بڑے سادہ، مگر پُراثر انداز میں بیان کرتی ہے۔
کتاب “خواب سے تعبیر تک” کا اسلوب سادہ، دل نشین اور بے حد مؤثر ہے۔ آمینہ یونس بلتستانی کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ پیچیدہ باتوں کو بھی نہایت آسان اور عام فہم انداز میں بیان کرتی ہیں۔ ان کا لہجہ دوستانہ ہے، جیسے کوئی قریبی شخص اپنے دل کی بات سنا رہا ہو۔ کہیں کوئی لفظ مصنوعی نہیں لگتا۔ان کے اسلوب میں نرمی اور روانی ہے، اور ایک مخصوص دل سے نکلی ہوئی سچائی ہے جو پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ نہایت خوبصورتی سے وہ نثر میں ایک ایسی شاعرانہ لطافت لے آتی ہیں جو اثر کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔
مختصر یہ کہ “خواب سے تعبیر تک” کا اسلوب دل سے لکھا ہوا اور دل پر اثر کرنے والا ہے ۔آمینہ یونس نے خوابوں، تمناؤں اور زندگی کی تلخیوں کو نہایت سادہ مگر دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کا ہر جملہ دل پر دستک دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے
یہ کتاب ان خوابوں کا بیان ہے جو ہم سب نے کبھی نہ کبھی دل میں بسائے، کچھ پورے ہوئے، کچھ کھو گئے، اور کچھ زندگی کا رخ بدل گئے۔ مصنفہ کا اندازِ بیاں اتنا خالص اور بے ساختہ ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کہانیاں کسی اور کی نہیں، خود ہماری اپنی زندگی کی ہوں۔
آمینہ یونس کا قلم محض خطیبانہ جملے نہیں لکھتا بلکہ ایک مہربان دل کی طرح دھیمے لہجے میں بات کرتا ہے۔ وہ قاری کوسکھاتی نہیں، بس ساتھ بیٹھ کر دل کی بات کہتی ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
کتاب “خواب سے تعبیر تک” کے افسانے ایک ایسا خوبصورت ادبی گلدستہ ہیں، جس میں ہر پھول اپنی خوشبو، رنگ اور پہچان کے ساتھ موجود ہے۔ ان عنوانات میں “بسکٹ”، “پھٹی ہوئی چپل”، “خاموشی” جیسے علامتی اور روزمرہ زندگی سے جُڑے موضوعات بھی ہیں، اور “لبیک ارضِ مقدس”، “خوف اور خدا”، “تم گواہ رہنا” جیسے گہرے اور روحانی رنگ بھی نظر آتے ہیں ۔ کچھ تحریریں عورت کے دکھ، اس کی شناخت اور اس کی عظمت کو اجاگر کرتی ہیں جیسے “بانجھ پن اور عورت”, “بیٹی”, “بیوی”, اور “بے قرار ممتا”. کچھ تحریریں معاشرتی شعور، اخلاقی پستی اور کردار سازی پر روشنی ڈالتی ہیں، جیسے “غیبت”, “احساسِ کمتری”, “تقدیر کا کھیل”, اور “زندگی تیری دوڑ دھوپ”. دیگر افسانے، جیسے “خوابوں کا سوداگر”, “وہ چراغ بجھ گیا”, اور “دھواں سے روشنی تک”, قاری کو زندگی، وقت، اور امید کے فلسفے سے روشناس کرواتے ہیں۔ اس مجموعے میں بچوں، نوجوانوں، عورتوں، بوڑھوں، اور خود انسانیت کی مجموعی حالت کا عکس ملتا ہے۔ یہ عنوانات صرف تحریروں کے نام نہیں، یہ جذبات، تجربات، تلخ حقیقتوں، اور خوابوں کا سفر ہیں جنہیں آمینہ یونس بلتستانی نے بڑی محبت، فکر اور سچائی کے ساتھ لفظوں میں ڈھالا ہے۔ یہ گلدستہ ہر قاری کے دل کو اپنی خوشبو سے مہکا دیتا ہے اور دیر تک اس کا اثر باقی رہتا ہے۔
بلاشبہ ایک خوبصورت اور شاندار کتاب ہے جس کی موجودگی آپ کی ذاتی لائیبریری کے لیے بہت ضروری ہے ۔آخر میں دعا ہے کہ اللّه آمینہ کے قلم کی زرخیزی تاقیامت سلامت رکھے ۔
column in urdu ,Dream to Interpretation




