زبان کا محاسبہ اور ہمارا معاشرہ ، یاسر دانیال صابری
ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ صرف ہاتھوں، آنکھوں یا قدموں سے سرزد ہوتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کو سب سے زیادہ نقصان اس کی زبان سے پہنچتا ہے۔ یہی زبان ہے جو محبت کے رشتے بناتی ہے اور یہی زبان نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کر دیتی ہے جسے گرانا برسوں کا کام بن جاتا ہے۔ الفاظ اگر مرہم بن جائیں تو زخم بھر جاتے ہیں اور اگر زہر بن جائیں تو نسلوں تک اثر چھوڑتے ہیں۔ آج اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ زبان کے گناہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں، اس قدر عام کہ ہمیں ان کی سنگینی کا احساس ہی نہیں رہتا۔
جھوٹ بولنا اب کسی اخلاقی برائی کے طور پر نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے مجبوری، ہوشیاری یا وقت کی ضرورت قرار دے دیا گیا ہے۔ غیبت، بہتان اور افواہیں محفلوں کی رونق بن چکی ہیں۔ کسی کی غیر موجودگی میں اس کی کردار کشی کرنا ہمیں گناہ نہیں لگتا، حالانکہ یہی عمل رشتوں کو کھوکھلا اور معاشرے کو بداعتمادی کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ ایک جھوٹ سے بات شروع ہوتی ہے اور پھر وہی جھوٹ دل توڑنے، خاندان بکھیرنے اور معاشرتی اعتماد ختم کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تیر کی مانند ہوتے ہیں، جو ایک بار چل جائیں تو واپس نہیں آتے، چاہے بعد میں ہزار معذرتیں کیوں نہ کر لی جائیں۔
ہماری گفتگو میں بد اخلاقی، طعنہ زنی، مذاق اڑانا اور گالم گلوچ اس بات کی علامت بن چکے ہیں کہ ہم صبر، برداشت اور شائستگی جیسی قدروں سے مسلسل دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ ہمارے الفاظ کسی کی عزتِ نفس کو کچل سکتے ہیں، کسی کو مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل سکتے ہیں یا کسی کے دل میں نفرت اور انتقام کا بیج بو سکتے ہیں۔ مؤمن کو رنجیدہ کرنا، دل دکھانا اور نا امید کرنا وہ گناہ ہیں جو بظاہر معمولی نظر آتے ہیں مگر اللہ کے نزدیک ان کا بوجھ بہت بھاری ہے۔
زبان کے ذریعے ریاکاری، تکبر، حسد اور بخل کا اظہار بھی ہمارے معاشرتی بگاڑ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہم باتوں میں خود کو بڑا اور دوسروں کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیکی کو چھوڑ دینا اور برائی کو پھیلانا اکثر الفاظ ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہم دوسروں کے عیب تلاش کرتے ہیں، راز فاش کرتے ہیں، بغیر تحقیق کے خبریں پھیلاتے ہیں اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ معاشرہ انتشار اور نفرت کا شکار کیوں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انتشار کسی اور نے نہیں بلکہ ہم نے خود اپنی زبانوں سے پیدا کیا ہے یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا کہ زبان جو کبھی اخلاق، حیا اور وقار کی علامت تھی، آج زہر بن چکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اخلاقی تربیت کا فقدان ہے۔ گھروں میں بچوں کو بولنے کے آداب سکھانے کے بجائے صرف کامیابی اور آگے بڑھنے کا سبق دیا جا رہا ہے، چاہے اس راستے میں کسی کا دل ہی کیوں نہ ٹوٹ جائے۔ تعلیمی ادارے ڈگریاں تو دے رہے ہیں مگر کردار سازی کا کام پیچھے رہ گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے اظہارِ رائے کو بے لگام کر دیا ہے، جہاں بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی کہنا آسان ہو گیا ہے۔ برداشت کی کمی، جلد غصہ، انا پرستی اور خود کو ہر حال میں درست ثابت کرنے کی عادت نے ہماری گفتگو کو تلخ اور بے رحم بنا دیا ہے۔ دین اور اخلاق کی تعلیمات زبانی دعووں تک محدود ہو چکی ہیں، عمل کم اور شور زیادہ ہو گیا ہے، اسی لیے زبان پر کوئی قابو باقی نہیں رہا۔
ہم آج ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں سخت لہجہ سچائی اور بدتمیزی کو بہادری سمجھا جاتا ہے۔ لوگ یہ نہیں جانتے کہ نرم بات بھی حق ہو سکتی ہے اور سخت بات بھی غلط۔ ہم نے زبان کی ذمہ داری کو فراموش کر دیا ہے، اسی لیے اختلاف رائے دشمنی میں بدل جاتا ہے اور معمولی بات بڑے فساد کا سبب بن جاتی ہے
اگر ہم واقعی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنی زبان کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم دن بھر میں کیا بولتے ہیں، کس نیت سے بولتے ہیں اور کس مقصد کے لیے بولتے ہیں۔ بولنے سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ میری بات سچ ہے یا نہیں، ضروری ہے یا نہیں، اور کسی کے لیے فائدہ مند ہے یا تکلیف دہ۔ غیر ضروری گفتگو، فضول مذاق اور تلخ جملوں سے بچنا ہی اصل دانائی ہے۔ خاموشی کو کمزوری نہیں بلکہ حکمت سمجھنا ہوگا، کیونکہ بہت سے فتنے الفاظ کے نہ کہنے سے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔
ہمیں سچ بولنے کی عادت ڈالنی ہوگی، چاہے وہ کڑوا ہی کیوں نہ ہو، اور دوسروں کی عزت کو اپنی انا پر ترجیح دینی ہوگی۔ غیبت اور بہتان سے بچنا، راز کی حفاظت کرنا اور تحقیق کے بغیر کوئی بات آگے نہ بڑھانا اصلاح کی بنیادی شرط ہے۔ نرم لہجہ، شائستہ الفاظ اور خیر خواہی پر مبنی گفتگو نہ صرف رشتوں کو مضبوط بناتی ہے بلکہ دلوں میں محبت اور اعتماد بھی پیدا کرتی ہے۔ اگر ہم اختلاف کے وقت بھی زبان کو قابو میں رکھ لیں تو آدھے مسائل وہیں ختم ہو جائیں
معاشرہ کیوں بگڑ رہا ہے، اصل سوال یہ ہے کہ ہم اپنی زبان کو سنبھالنے کے لیے کب سنجیدہ ہوں گے؟ معاشرے کی اصلاح کسی ایک قانون، ایک تقریر یا ایک مہم سے نہیں ہوتی بلکہ ہر فرد کی ذاتی اصلاح سے ہوتی ہے۔ اگر ہر انسان اپنی زبان کی نگرانی شروع کر دے تو بڑے بڑے فساد خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ زبان اگر قابو میں آ جائے تو انسان کا کردار بھی سنور جاتا ہے اور معاشرہ بھی۔ آئیں عہد کریں کہ ہم زبان کے ان گناہوں کو ترک کریں گے، اپنے الفاظ کو زہر نہیں بلکہ مرہم بنائیں گے، کیونکہ ایک بہتر، مہذب اور پُرامن معاشرہ اچھی گفتگو ہی سے جنم لیتا ہے۔
تالے کی اہمیت ، آمینہ یونس بلتستان
شگر اے پی ایل (اگے پہ فٹ سال لیگ) کا سنسنی خیز فائنل میچ اماچہ پولو گراؤنڈ میں کھیلا گیا،
امن سے ہی ترقی ممکن ہے ، محمد سکندر کونیسی
column in urdu, Accountability




