column in urdu 0

عوام کے ہاتھوں سے چھنا گیا نظام، ایس ایم مرموی
یہ ملک عجیب تضادات سے بھرا ہے۔ یہاں آئین کے دیباچے میں عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے، لیکن حقیقت میں عوام سے طاقت ایسے چھینی گئی ہے جیسے بچے کے ہاتھ سے کھلونا۔ جمہوریت کا ڈھول بجتا رہتا ہے، مگر اس کے اندر ہوا ہی نہیں۔ وجہ سادہ ہے لوکل گورنمنٹ کا نظام کبھی پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ایوب خان نے بی ڈی سسٹم متعارف کرایا، ضیاء الحق نے بلدیاتی ادارے چلائے، پرویز مشرف نے ناظمین کو طاقت دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں آمر تھے۔ ان کو پتہ تھا کہ اگر سیاسی قیادت کو مکمل کنٹرول دے دیا تو وہ عوام کو بھول جائیں گے۔ اس لیے آمرانہ ادوار میں لوکل گورنمنٹ نسبتاً مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ مگر جیسے ہی جمہوریت کے علمبردار اقتدار میں آتے ہیں، پہلا وار یہی کرتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو معطل کر کے بیوروکریسی اور وزیروں کے قدموں میں عوام کو جھکا دیں۔جمہوری حکمرانوں کا خوف یہ ہے کہ اگر مقامی سطح پر نمائندے مضبوط ہو گئے تو ایم این اے اور ایم پی اے کی دکان بند ہو جائے گی۔ وہ فنڈز جو اب اربوں میں ملتے ہیں، سیدھے سیدھے عوامی نمائندوں کو جانے لگیں گے۔ پھر “ترقیاتی اسکیموں” کی آڑ میں کمیشن اور کک بیکس کہاں سے آئیں گے؟ وہ جلسوں میں یہ کیسے جتائیں گے کہ یہ سڑک میرے پیسوں سے بنی ہے بیوروکریسی کے رنگ ڈھنگ اور بھی نرالے ہیں۔ یہ طبقہ خود کو حاکمِ اعلیٰ سمجھتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر سے لے کر سیکریٹری تک سب چاہتے ہیں کہ فائلوں کے جنگل میں عوام رلتے رہیں اور فیصلہ ان کی مہر کے بغیر نہ ہو۔ اگر مقامی نمائندے طاقتور ہو گئے تو ان کے اختیاراتِ خاص پر کاری ضرب لگے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ سیاست دانوں سے زیادہ لوکل گورنمنٹ کے دشمن رہے ہیں۔اگر یہ نظام واقعی اپنی روح کے مطابق چلتا تو اس ملک کا نقشہ بدل جاتا گاؤں میں اسکول، ڈسپنسری اور پانی کی سکیمیں وہی بن جاتیں جہاں عوام کو اصل ضرورت ہوتی۔چھوٹے منصوبوں کے لیے اسلام آباد یا لاہور کی وزارتوں کے چکر نہ لگانے پڑتے۔ عوام براہِ راست اپنے نمائندے کے دروازے پر دستک دیتے اور جواب بھی وہیں ملتا۔ سب سے بڑھ کر، مقامی سطح پر احتساب ہوتا۔ کونسلر کل محلے کی مسجد یا دکان پر بیٹھا نظر آتا، عوام روزانہ پوچھ سکتے کہ بھائی! یہ فنڈ کہاں گیا؟

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

یہ سب اگر ہوتا تو آج عوام بڑے سیاست دانوں کے سامنے ذلیل و خوار نہ ہو رہے ہوتے۔ مگر ایسا ہونے دیا جاتا تو قومی سیاست کی دکان کیسے چلتی.آج بھی پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی ادارے نیم مردہ ہیں۔ بلوچستان میں کاغذ پر ہیں، حقیقت میں کہیں نہیں۔ خیبر پختونخوا نے نظام تو بنایا، مگر فنڈز روکے گئے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں تو لوکل گورنمنٹ کا نام لینا بھی گناہ ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ عوام کا براہِ راست کوئی نمائندہ موجود نہیں۔ محلے کی گلی ٹوٹی ہو، گاؤں میں بجلی نہ ہو، ہسپتال میں دوائی نہ ہو لوگ ایم این اے یا وزیر کے دفتر کے چکر لگاتے ہیں۔ یہ وہی سیاست دان ہیں جو پانچ سال بعد یہ پھر ایک اور موقع مانگنے آ جاتے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور افسران کو عوام پر بھروسہ ہی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر طاقت نچلی سطح پر چلی گئی تو ان کا جاہ و جلال ختم ہو جائے گا۔ ان کو عوامی خدمت نہیں، بلکہ عوامی غلامی چاہیے۔ اسی لیے لوکل گورنمنٹ کا آئینہ ہمیشہ توڑ دیا جاتا ہے، تاکہ ان کا مکروہ چہرہ نظر نہ آئے۔

یہ کھیل کب تک چلے گا؟ کب تک عوام کے ہاتھوں سے اختیار چھین کر محلات اور سیکریٹریٹ کی الماریوں میں بند رکھا جائے گا؟ جب تک طاقت نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوتی، اس ملک میں جمہوریت محض ایک نعرہ رہے گی اور عوام محض تماشائی۔لوکل گورنمنٹ صرف ایک نظام نہیں، یہ دراصل عوام کی عزتِ نفس کا نام ہے۔ اور جب تک عوام کو یہ عزت واپس نہیں ملتی، بڑے ڈاکو ہی مسلط رہیں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

عوام کے ہاتھوں سے چھنا گیا نظام، ایس ایم مرموی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں