ہم نے صنم کو خط لکھا ! پروفیسر قیصر عباس
بھارتی فلم انڈسٹری میں 1982ء میں ایک فلم “شکتی” ریلیز ہوئی جس کے ایک گانے نے فلمی دنیا میں دھوم مچا دی ۔اس گانے کے شاعر آنند بخشی تھے ٫موسیقار آر ڈی برمن جب کہ آواز کا جادو لتا منگیشکر جی نے جگایا.اس فلم کی کاسٹ دلیپ کمار امیتابھ بچن اور سمیتا پائل پر مشتمل تھی ۔ اس گانے کے ابتدائی بول تھے “ہم نے صنم کو خط لکھا”۔شاعری اصل میں انسان کے احساسات و جذبات کو اپنے محبوب تک پہنچانے کا بہترین وسیلہ سمجھا جاتا ہے ۔شاعری کو محب اپنے محبوب تک اپنے دکھوں اور تکلیفوں کے اظہار کا ذریعہ بناتا ہے اور ان تکلیفوں کا مداوا چاہتا ہے ۔لیکن اگر ہم میدان سیاست کی بات کریں تو اس میدان میں بھی اپنے مسائل کے اظہار کے بہت سے طریقے ہیں جس میں سب سے عمدہ اور قدیم ترین طریقہ خط لکھنا ہے ۔ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں انٹرنیٹ اور دیگر ایپس نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں وہی خطوط کو ابھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔پاکستانی سیاست میں سیاسی خطوط کا تذکرہ کیا جائے تو ایک علیحدہ الف لیلہ کی داستان مرتب ہو سکتی ہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے خطوط کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے خصوصاً جب سے پی ٹی آئی پر کڑا وقت آیا ہے خطوط لکھنے کا نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔کبھی سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخصوص نشستوں کے حصول کے لئے خط لکھے گئے ٫کبھی چیف الیکشن کمیشنر آف پاکستان کو خط لکھ کر ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلوایا گیا اس سے پہلے” بلے کے نشان” کو حاصل کرنے کے لئے چیف جسٹس سمیت آئینی اداروں کے سربراہان کو خطوط لکھے مگر حاصل کچھ نہ ہوا۔جب یحییٰ آفریدی چیف جسٹس آف پاکستان بنے تو 9 مئی اور 24نومبر کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کے لئے چیف جسٹس کو خطوط لکھے گئے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے متعدد بار چیف جسٹس آف پاکستان کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹیوں اور مختلف بنچز کی تشکیل کے لئے خطوط لکھے یہ الگ بحث ہے کہ خطوط لکھنے کا کوئی فائدہ بھی ہوا یا پھر یہ سعی بیکار گئی ۔آج کل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک نئے خط کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔وہ خط ہے بانی پی ٹی آئی جناب عمران خان کا جو انہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لکھا ہے اس خط میں انہوں نے اپنی گزارشات سمیت اپنے تحفظات کا بھی کھل کر اظہار کیا ہے ۔سابق وزیر اعظم پاکستان اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے سوشل میڈیا کے آفیشل اکاؤنٹ سے شئیر کئے گئے ایک خط میں انہوں نے آرمی چیف سے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے کی درخواست کی ہے ۔عمران خان نے اپنے خط میں کہا ہے کہ” گزشتہ برس ہونے والے دھاندلی زدہ انتخابات کے باعث عوام اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں ہیں”۔جب کہ اپنے خط میں عمران خان نے چھبیسویں آئینی ترمیم کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کے مترادف قرار دیا ہے ۔ خط کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے “فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے ۔ہمارے فوجی پاکستان کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو لیکن افسوس ناک امر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں خلیج بڑھتی جارہی ہے “۔ ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ خان صاحب نے جس عوام کی بات کی ہے وہ مکمل 24 کروڑ عوام نہیں کیونکہ 24 کروڑ عوام مختلف پارٹیوں اور اپنے اپنے لیڈران کی وجہ سے منقسم ہے اس لئے خان صاحب جب “عوام “کی بات کرتے ہیں تو یہاں عوام سے مراد خالصتاً پی ٹی آئی کے کارکنان ہمدرد اور ووٹرز ہیں ۔جب کہ جس اسٹبلشمنٹ کی بات کی جارہی ہے اس سے مراد فرد واحد سپہ سالار جنرل عاصم منیر ہیں سلیس اردو میں اس خط کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ (سپہ سالار )کی پالیسیوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کے کارکنان (عوام)میں دوریاں بڑھ رہی ہیں ۔۔یہ خط جو کہ محب نے اپنے محبوب کو لکھا ہے تو اس پر رقیبوں نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے جس میں سب سے دلچسپ اظہار میاں نواز شریف کے ترجمان اور سینیٹر عرفان صدیقی کا ہے ۔صدیقی صاحب نے اس حوالے سے فرمایا ہے کہ آرمی چیف کے نام عمران خان کا نام نہاد خط ان کی پرانی “افسوس ناک سوچ “کی ترجمانی کرتا ہے ٫اس خط کا جواب آنا تو دور کی بات ہے رسید تک نہیں آئے گی “۔ایک ٹی وی ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا “ابھی تک خط کسی نے دیکھا نا ہی پڑھا ٫پتا نہیں کس کبوتر کی چونچ میں ہے اور وہ کب کس منڈیر پر اترے گا “. عرفان صدیقی نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ” عمران خان نے 2023 ء کے اوائل میں بھی آرمی چیف کے نام خط لکھا تھا جو اس کے وقت کے صدر عارف علوی کے ذریعے آرمی چیف کو بھیجا گیا تھا لیکن اس کی بھی رسید آئی نہ جواب “۔ عرفان صدیقی نے سابق ممبر قومی اسمبلی جاوید ہاشمی کے اس خط کا حوالہ بھی دیا جس میں انہوں نے فوج کا حوالہ دے کر تنقید کی تھی اور پھر انہیں غداری جیسے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔خیر محبوب کو خط لکھا جائے اور رقیبوں کو اس کی خبر نہ ملے یا پھر اس پر رقیبوں کاردعمل نہ آئے ممکن نہیں ہے ۔اس لئے عرفان صدیقی سمیت مسلم لیگ ن کی قیادت کا اس خط پر ردعمل بھی آگیا ہے ۔حاصل بحث یہی ہے کہ عمران خان موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس بات کا انہیں اندازہ بھی ہو چکا ہے کہ پاکستان میں اگر سیاست کرنی ہے تو اسٹبلشمنٹ سے “سینگ پھنسا”کر نہیں کی جاسکتی ۔بلکہ عمران خان 2018ء میں بھی اقتدار میں آئے تھے تو اس میں “محکمہ زراعت” کا ایک بڑا ہاتھ تھا۔ خصوصاً جنوبی پنجاب کے ممبران اسمبلی کی حمایت اسی “محکمہ “کی مرہون منت تھی ۔اب عمران خان صاحب نے جو صنم کو خط لکھا ہے اس کا جواب “بے رخی” کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر نگاہ یار میں کچھ “نرمی و پیار”جھلکتا ہے یہ آنے والے چند دنوں میں پتہ چل جائے گا۔
پروفیسر قیصر عباس
لاہور ہائیکورٹ نے ڈی سی کو پی ٹی آئی کی مینار پاکستان پر جلسے کی درخواست پر فیصلہ کرنے کا حکم
صدر آصف زرداری کا چینی صدر سے ملاقات، پاک چین باہمی مسائل پر تعاون جاری رکھنے کا اعائدہ