ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی! پروفیسر قیصر عباس

column in urdu

ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی! پروفیسر قیصر عباس
امریکہ میں صدارتی انتخابات کے انعقاد کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47ویں صدر منتخب ہوگئے ہیں۔سیاسی امور میں دلچسپی رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی صدارتی طرز حکومت ہے اسے امریکی صدارتی نظام کی نقل کہا جا سکتا ہے ۔امریکہ بنیادی طور پر ایک وفاقی ملک ہے جس کی اکائیوں کی تعداد پچاس ہے اور ان اکائیوں کو سٹیٹس کہا جاتا ہے ۔امریکہ میں قانون ساز ادارے کو کانگریس کہتے ہیں ۔کانگریس کے دو ایوان ہیں ایک کا نام “ایوان نمائندگان” جب کہ دوسرے کا نام “سینیٹ” ہے ۔ایوان نمائندگان کی گانکریس میں آبادی کے مطابق ہے جب کہ سینیٹ میں ہر ریاست کے دو نمائندے موجود ہیں ۔ایوان نمائندگان کی ٹوٹل تعداد 438 جب کہ سینیٹ کی تعداد 100 ہے۔امریکہ میں کانگریس کی تعداد کے برابر ایک الیکٹورل کالج تشکیل دیا ہے جاتا “الیکٹورل کالج” میں کسی بھی سٹیٹ کی اتنی ہی نمائندگی ہوتی ہے جتنے کانگریس میں اس کے نمائندے ہوتے ہیں ۔یہ “الیکٹورل کالج” ہی امریکی صدر کا انتخاب کرتا ہے ۔امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے لئے” الیکٹورل کالج” کے 270 ارکان کے ووٹ حاصل کرنا لازمی ہیں۔اگر بالفرض کوئی بھی امیدوار مطلوبہ ووٹ حاصل نہیں کر پاتا تو پھر ایوان نمائندگان صدر کا انتخاب کرے گا۔امریکہ میں ایک اور روایت بھی موجود ہے امریکی صدر کا انتخاب ہر چار سال بعد لیپ ائیر (جس سال فروری 28دن کا ہو )٫ نومبر کے مہینے میں ہوتا ہے اور ووٹنگ منگل والے دن ہوتی ہے ۔2024 کا سال بھی چونکہ لیپ ائیر ہی تھا اس لئے نومبر میں 47ویں صدر کا انتخاب ہوا ۔اس انتخاب میں دو امیدوار آمنے سامنے تھے ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے کملا ہیرس جب ریپبلکن پارٹی کی طرف سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ۔کملا ہیرس موجودہ صدر جو بائیڈن کی نائب صدر بھی ہیں دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ 2016ء میں امریکہ کے صدر منتخب ہوئے اور تب انہوں نے ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی جسے اپ سیٹ بھی کہا گیا تھا ۔2020ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ موجودہ صدر جو بائیڈن کے ساتھ تھا جو بڑا کانٹے دار ہوا مگر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔یاد رہے ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان “گدھا”جب کہ ریپبلکن پارٹی کا انتخابی نشان “ہاتھی” ہے ۔وہ ریاستیں جہاں ہمیشہ ڈیموکریٹس جیتتے ہیں انہیں “بلیو سٹیٹس”کہا جاتا ہے اور جن ریاستوں میں ہمیشہ ریپبلکنز بازی لے جاتے ہیں انہیں “ریڈ سٹیٹس”کہا جاتا ہے ۔بلیو اور ریڈ سٹیٹس کی ٹوٹل تعداد 43 ہے ۔جب کہ سات سٹیٹس کو “Swing States”کہا جاتا ہے۔اور یہی سات سٹیٹس فیصلہ کرتی ہیں کہ آئندہ واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کا نیا مکین کون ہوگا ۔کملا ہیرس کی والدہ انڈین نیشنل تھی اور وہ پڑھائی کے سلسلے میں امریکہ گئی وہاں ایک پروفیسر ڈونلڈ ہیرس سے شادی کی اور پھر وہی کی ہو کر رہ گئی ۔جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ارب پتی ہیں جو کہ” رئیل اسٹیٹ” کے کاروبار سے منسلک ہیں۔اس صدارتی انتخاب میں امریکہ کے 174 ارب پتی افراد نے دونوں امیدوار واروں کی حمایت کی ۔174 میں سے 92 ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی تھے جب کہ 82 کملاء ہیرس کے ۔مشہور زمانہ ارب پتی ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کھل کر حمایت کی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے ایلون مسک کو ذہین اور عقلمند شخص بھی قرار دیا ۔ڈونلڈ ٹرمپ کو جب دوسری ٹرم میں شکست ہوئی تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ ڈونلڈ 2024 ء کے الیکشن میں بطور امیدوار سامنے آسکیں گے اور ایک بار پھر ایک خاتون کے صدر بننے کے خواب کو چکناچور کر دیں گے۔مگر ڈونلڈ نہ صرف ریپبلکن امیدوار بنے بلکہ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملاء ہیرس کو شکست دی اور دوبارہ وائیٹ ہاؤس پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔2024 ء کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے” الیکٹورل کالج “کے 277جب کہ کملا ہیرس نے 226 ووٹ حاصل کئے ہیں ۔امریکہ میں ایوان نمائندگان کی میعاد دو سال ہے اس لئے ہر دو سال بعد ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے ایک تہائی ارکان کا انتخاب بھی ہوتا ہے ۔موجودہ انتخاب میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں بھی ریپبلکن پارٹی ڈیموکریٹک پارٹی سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ صدر ریپبلکن پارٹی کا جیت جاتا ہے اور کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت ہوتی ہے جس کی وجہ سے صدر اور قانون ساز ادارے میں ایک تناؤ برقرار رہتا ہے ۔صدر کانگریس کی جانب سے بننے والے قوانین کو “ویٹو”کرتا رہتا ہے جب کہ کانگریس مالی معاملات اور دیگر معاملات کی منظوری نہیں دیتی جس کی وجہ سے انتظامیہ اور مقننہ میں کشیدگی رہتی ہے ۔لیکن اگر صدر بھی اسی جماعت کا ہو جس جماعت کی کانگریس میں اکثریت ہو تو صدر کے لئے نظام حکومت چلانے میں آسانی رہتی ہے۔امریکی انتخابی روایات میں ایک اہم روایت براہ راست صدارتی مباحثہ بھی ہے ۔دونوں امید براہ راست ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکر اپنی پالیسیوں کی وضاحت کرتے ہیں اور مخالف امیدوار کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔موجودہ صدارتی الیکشن میں بھی ایسا ہی ہوا۔کملا ہیرس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو “ڈکٹیٹر ” اور جنوری 2020ء کے اس واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے جس میں ٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن ڈی سی میں” کیپیٹل ہل “پر چڑھائی کردی تھی ٫ کو جمہوریت دشمن قرار دیا ۔ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ ٹکیسز کو “ٹرمپ ٹیکسز “قرار دیا ۔امریکی عوام کو خبردار کیا کہ چونکہ ٹرمپ ایک ارب پتی سرمایہ دار ہے اس لئے ٹرمپ کے حکومت میں آنے کی وجہ سے مڈل کلاس امریکیوں کا جینا مشکل ہو جائے گا۔کملا ہیرس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو چین ٫روس اور شمالی کوریا نواز قرار دیا ۔ کملا ہیرس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی” حرکات” پر دیگر ممالک کے سربراہان ہنستے ہیں۔کملا ہیرس نے مزید کہا ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی جرنیلوں اور دیگر آفیشلز کو بڑے ہتک آمیز طریقے سے برطرف کیا تھا۔ان سب باتوں کا جواب ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دیا ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کملا ہیرس کے” Boss ” جو بائیڈن بہت کمزور صدر واقع ہوئے ہیں کیونکہ نہ تو وہ روس کو روک سکے کہ یوکرین پر جنگ مسلط نہ کرے اور نہ ہی مشرق وسطی میں فلسطین اسرائیل جنگ بندی کروا سکے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کملا ہیرس کو” سوشلسٹ”قرار دیا اور کہا کہ ان کے والد ڈونلڈ ہیرس بھی سوشلسٹ تھے اس لئے کملا ان سے بہت متاثر رہی ہے۔ڈونلڈ نے جرنیلوں اور امریکی آفشلز کی بر طرفی کے بارے کہا کہ جب کوئی اپنا کام درست طریقے سے نہیں کرے گا تو میں اسے برطرف ہی کروں گا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کملا ہیرس پر یہ الزام بھی لگایا کہ کملا اسرائیلیوں سے نفرت کرتی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی طرف بھی نشاندھی کی کہ غیر قانونی تارکین وطن کی وجہ سے امریکہ میں مختلف جرائم پروان چڑھ رہے ہیں اور اگر وہ صدر بنے تو امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کا داخلہ ناممکن بنا دے گے ۔ٹرمپ نے امریکہ میں مہنگائی٫ افراط زر اور دیگر مسائل کا ذمہ دار بھی جو بائیڈن انتظامیہ کو ٹھہرایا ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ اگر وہ صدر بن گئے تو دنیا میں تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا ۔انہوں نے ایران پر پابندیاں لگانے کا کریڈٹ بھی لیا اور کہا کہ ایران پر معاشی پابندیاں لگا کر ایران کو کمزور کیا جس کی وجہ سے ایران حزب اللہ اور دیگر عسکری تنظیموں کی کھل کر مدد نہیں کر سکا ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر وہ صدر بنے تو امریکہ کو ایک” عظیم ملک “بنا دے گے ۔تجزیہ نگاروں کے مطابق ڈیموکریٹ حکومت دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہے خصوصاً روس اور یوکرین جنگ کو روکنے اور پھر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی میں ناکامی کملا ہیرس کی شکست کی وجہ ہے اس کا بھرپور فائدہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر اٹھایا کہ کہ اگر میں صدر بنا تو تیسری عالمی جنگ کا راستہ روک دونگا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ 20جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ جب امریکہ کے 47ویں صدر کا حلف اٹھا لیں گے تو کیا وہ امریکی عوام کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا کر پائے گے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

column in urdu

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے دوسری بار صدر بن گئے،277 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے

جماعت اسلامی کا 26 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج، ترمیم کو بنیادی حقوق کے خلاف قرار دینے کی استدعا

یو بی ایل بنک میں نوکری حوالے سے اہم معلومات

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں