سید حسن نصر اللہ الوداع! پروفیسر قیصر عباس
سید حسن نصر اللہ الوداع! پروفیسر قیصر عباس
لبنان کی مذہبی و عسکری جماعت حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ 27ستمبر2024ءکو اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے ہیں ۔اسرائیلی بربریت کی یہ پہلی مثال نہیں اس سے پہلے بھی فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے بانی سربراہ شیخ احمد یاسین کو شہید کیا گیا جب کہ چند ماہ پہلے اسی مزاحمتی تحریک کے سربراہ اور فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ کو ایران کے شہر تہران میں نشانہ بنایا گیا یاد رہے اسماعیل ہانیہ کی شہادت سے پہلے ان کے بیٹوں اور پوتوں کو بھی شہید کیا گیا تھا۔فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کو سب سے زیادہ سپورٹ ایران کی طرف سے مل رہی تھی جب کہ فلسطین ایک عرب ملک ہے ٫ نہ صرف عرب ملک ہے بلکہ عرب لیگ کا بھی اہم رکن ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ عرب لیگ ایک لسانی تنظیم ہے اور اس تنظیم میں صرف وہی ممالک شامل ہیں جن ممالک کی مادری زبان عربی ہے ۔عرب لیگ میں زیادہ تر وہ ممالک شامل ہیں جو مسلکی طور پر سنی مسلمان ہیں ۔مگر یہاں ایک بات قابل افسوس ہے کہ اپنے ہم مسلک مسلمان بھائیوں کی نہ تو سفارتی مدد کی جارہی ہے اور نہ ہی اخلاقی ۔حتی کہ بہت سارے مسلمان ممالک نے تو اسرائیل کو اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کر رکھا ہے ۔اسلامی ممالک میں صرف ایران اور پاکستان وہ ممالک ہیں جنہوں نے نہ ہی اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے اور نہ ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنائے ہیں ۔ایران میں بسنے والے لوگ اگرچہ مسلکی طور پر شیعہ مسلمان ہیں لیکن اس کے باوجود ایران نے ہمیشہ سے ہی فلسطین کی آزادی اور حریت کی حمایت کی ہے اور اسرائیل کی جارحیت کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ فلسطینی کاز کے لئے ہر سطح پر آواز اٹھائی ہے ۔چند ماہ پہلے جب اسماعیل ہانیہ کو تہران میں شہید کیا گیا تو ایران پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوئی کیونکہ ایران بطور ریاست ایک ہائی پروفائل شخصیت کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ۔یہ تنقید ہونا بھی چاہئے تھی کیونکہ اسماعیل ہانیہ بطور مہمان ایران میں آئے تھے اور انہوں نے نئے منتخب شدہ ایرانی صدر کی حلف برداری میں شرکت کرنا تھی ۔لیکن اس تقریب سے پہلے ہی انہیں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ۔اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا ایران نے اعلان بھی کیا تھا اور اسرائیل پر مزائیل بھی داغے لیکن نہ ہی ان میزائلوں نے اسرائیل کا خاطر خواہ نقصان کیا اور نہ ہی اسرائیل نے ان مزائیل حملوں یا دھمکیوں کو سنجیدہ لیا ۔اب ایک اور ایران نواز اور فلسطینی مزاحمتی تحریک کی حمایت کرنے والے جنگجو تنظیم حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کو شہید کر دیا گیا ہے ان کی شہادت سے پہلے ان کے بیٹے کو بھی شہید کیا گیا تھا جب کہ جس حملے میں سید حسن نصر اللہ شہید ہوئے ہیں اسی حملے میں ان کی دختر زینب بھی شہید ہوئیں ہیں۔ان کی شہادت کے بعد سید ہاشم صفی الدین کو ان کا جانشین چن لیا گیا ہے ۔سید حسن نصر اللہ کی ذاتی زندگی پر بات کی جائے تو ان کی ولادت 1960میں بیروت کے مضافاتی علاقے میں ایک شیعہ مسلمان گھرانے میں ہوئی ۔جب 1982ء میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف لبنان میں عسکری تنظیم حزب اللہ کی بنیاد رکھی گئی تو سید حسن نصر اللہ اس میں شامل ہوگئے ۔1992ء میں حزب اللہ کے سربراہ سید عباس موسوی اسرائیلی حملے کے نتیجے میں شہید ہوئے تو سید حسن نصر اللہ کو سید عباس موسوی کا جانشین منتخب کیا گیا۔1992 سے لیکر 27ستمبر 2024 یعنی شہادت تک سید حسن نصر اللہ حزب اللہ کے سربراہ رہے ۔حزب اللہ نے سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں اسرائیل جو کہ ٹیکنالوجی سے لیس ملک ہے٫ کو ناکوں چنے چبوائے ہیں ۔جب 1993 ء میں اسرائیل نے حزب اللہ کو عسکری طور پر کمزور کرنے کے لئے “آپریشن اکاؤنٹیبیلٹی “کا آغاز کیا تو حزب اللہ نے اس حوالے سے نہ صرف مزاحمت دکھائی بلکہ اسرائیلی فورسز کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔بالکل اسی طرح 2000ء میں شمالی لبنان جس پر گزشتہ 18 سال سے اسرائیل قابض تھا حزب نے جب اسرائیلی فورسز سے یہ قبضہ چھڑوایا تو اس سے نہ صرف حزب اللہ بلکہ سید حسن نصر اللہ کی شہرت میں اضافہ ہوا اور ان کو خصوصی طور پر شیعہ مسلمانوں میں کرشماتی شخصیت کا درجہ مل گیا ۔2006میں بھی لبنان اسرائیل جھڑپیں ہوتی رہی اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا دائرے میں وسعت آگئی جس کی وجہ سے حزب اللہ اور سید حسن نصر اللہ کو ہدف تنقید بنایا گیا ۔لیکن اس کے باوجود سید حسن نصر اللہ مزاحمت اور حق خودارادیت پر یقین رکھنے والے طبقے کے ہیرو بنے رہے ۔شام اور عرب ممالک میں داعش کا مقابلہ بھی حزب اللہ نے کیا ۔ داعش کو شام اور عراق میں ختم کر نے میں سید حسن نصر اللہ نے اہم کردار ادا کیا ۔اکتوبر 2023ء سے اسرائیلی بربریت اور جارحیت کی سید حسن نصر اللہ نے نہ صرف مخالفت کی بلکہ اسرائیل کے مقابلے میں فلسطین کی ہر سطح پر حمایت جاری رکھی ہے اور یہ حمایت نہ صرف سفارتی سطح پر تھی بلکہ عسکری سطح پر بھی تھی۔ سید حسن نصر اللہ کی شہادت ایران کے لئے بھی ایک جھٹکا ہے کیونکہ سید حسن نصر اللہ ایرانی پالیسیز کو مشرق وسطی میں پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کررہے تھے ۔
پروفیسر قیصر عباس! column in urdu