“A Drop of Life 0

ایک قطرہ زندگی، آمینہ یونس بلتستانی
زندگی اتنی حسین بھی ہو سکتی ہے؟ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ من چاہا ساتھی مل جائے تو جیسے عمر میں کئی سالوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ دل کی دنیا خوشبو، شبنم، اور ٹھنڈک سے مہک اٹھتی ہے، اور ہر لمحہ شکرگزاری میں ڈھل جاتا ہے۔ طاہرہ نے ایک لمبی سانس لی اور اپنے کمرے کو دیکھا، جو دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ “جی ہاں، میں طاہرہ اکبر، اور چند دن پہلے شادی کے بعد، طاہرہ یاسین بن چکی ہوں۔ محبت کرنا اور پانا، یہ سب بہت انوکھا اور خوبصورت لگ رہا ہے۔ میں اور یاسین ایک دوسرے سے بےحد محبت کرتے ہیں، اور اب ہم شادی کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔” ہم دونوں رشتہ دار بھی تھے، اور ہمارے بیچ کوئی ظالم سماج حائل نہ تھا، اس لیے ہم ایک ہو گئے۔ میں اپنی پھوپھو کے گھر بہو بن کر آئی تھی، اور وہ مجھ سے بیٹی کی طرح محبت کرتی تھیں۔ یاسین مجھ پر جان چھڑکتا تھا۔ یوں، ہنسی خوشی ایک سال گزر گیا، اور وقت کا پتہ بھی نہ چلا۔ پھر ایک دن، میری طبیعت کچھ بوجھل رہنے لگی۔ یاسین فوراً مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ چیک اپ کے بعد، ڈاکٹر نے خوشخبری سنائی: “مبارک ہو! آپ ماں بننے والی ہیں۔” میں نے یاسین کی طرف دیکھا، وہ چمکتی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے شرم سے سر جھکا لیا اور سوچا: “یا اللہ! کیا زندگی اس سے بھی زیادہ حسین ہو سکتی ہے؟” یہ خبر گھر والوں کو ملی تو سب خوشی سے نہال ہو گئے۔ پھوپھو میری خاص دیکھ بھال کرنے لگیں، اور یاسین تو ہر پل میرے آرام کا خیال رکھتا۔ وہ ڈیوٹی پر جاتا تو بھی فون کرکے پوچھتا: “تم نے کھانا کھایا؟ جوس پی لیا؟ فروٹ کھایا؟” میں ہنستی اور کہتی: “جی لیا، آپ فکر نہ کریں۔” وہ فوراً کہتا: “فکر نہ کروں تو کون کرے گا؟ تم میری زندگی ہو، میری خوشی ہو!” یوں، زندگی خوشی کے جھولے میں جھولتی رہی۔ جوں جوں وقت گزرتا، ہماری خوشی بڑھتی جاتی۔ میں اکثر پوچھتی: “یاسین، ہم اپنے بچے کا کیا نام رکھیں گے؟” وہ مسکرا کر کہتا: “جو تمہیں پسند ہو!” “نہیں، آپ بھی کوئی نام بتائیں نا!” پھر میں چھیڑتی: “آپ کو بیٹا چاہیے یا بیٹی؟” یاسین ہنستے ہوئے کہتا: “دونوں اللہ کے انعام ہوتے ہیں، آسمانی تحفہ۔ جو بھی ہو، میں شکر ادا کروں گا۔” بالآخر وہ دن آ گیا جس کا شدت سے انتظار تھا۔ اللہ نے ہمیں ایک چاند سا بیٹا عطا کیا۔ لگا جیسے ہماری محبت مکمل ہو گئی ہو۔ ہم نے اس کا نام “محمد” رکھا۔ گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، کیونکہ یہ پہلا بچہ تھا۔ محمد محبت کے جھولے میں پلنے لگا۔ لیکن پھر۔۔۔ محمد کی پہلی سالگرہ کے قریب، اچانک بخار نے اسے آ لیا۔ ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ پہلی بار ایک ماں ہونے کا اصل مطلب سمجھ آیا۔ ممتا کی تڑپ کیا ہوتی ہے، یہ جانا۔ پھوپھو نے تسلی دی: “بچوں میں ایسا ہلکا پھلکا بخار ہوتا رہتا ہے، گھبراؤ نہیں!” مگر بخار کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگا۔ محمد کمزور ہوتا جا رہا تھا، دودھ بھی کم پینے لگا۔ میں اور یاسین پریشان رہنے لگے۔ راتوں کو اٹھ کر رونے لگتی، اللہ سے دعا کرتی: “میرے جگر کے ٹکڑے کو شفا دے، یا اللہ!” ہم محمد کو ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے، مہنگے مہنگے علاج کرواتے، لیکن صحت بہتر ہونے کے بعد بھی وہ دوبارہ بیمار پڑ جاتا۔ پھر ایک دن، ایک ماہرِ اطفال نے کہا: “آپ دونوں کو ایک ٹیسٹ کروانا چاہیے۔” ہم حیران: “ہمیں؟ بیمار تو محمد ہے!” ڈاکٹر نے نرمی سے کہا: “بعض دفعہ ماں باپ میں کوئی پوشیدہ بیماری ہوتی ہے، جو اولاد کو منتقل ہو جاتی ہے۔ احتیاطی طور پر ٹیسٹ کروا لیجیے۔” ہم نے ٹیسٹ کروایا، اور جب رپورٹ آئی تو جیسے زمین ہمارے قدموں تلے سے کھسک گئی۔ ہم دونوں “تھیلیسیمیا مائنر” کے شکار تھے، اور ہمارا بیٹا “تھیلیسیمیا میجر” میں مبتلا تھا۔ ڈاکٹر نے افسوس سے کہا: “اگر شادی سے پہلے آپ دونوں نے ایک چھوٹا سا ٹیسٹ کروا لیا ہوتا، تو محمد اس تکلیف میں نہ ہوتا!” ہم دونوں سکتے میں تھے۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ لاعلمی کا یہ چھوٹا سا نقصان، ہماری پوری زندگی اجاڑ دے گا۔ اب محمد کو ہر ماہ خون کی ضرورت تھی۔ ہم اسپتالوں کے چکر لگاتے، بلڈ بینکس اور سوشل میڈیا پر منتیں کرتے، لیکن ایک ننھی سی جان کے لیے خون دینا لوگوں کو بوجھ لگتا۔ حالانکہ ایک زندگی بچانے کا ثواب اللہ کے ہاں بے حد عظیم ہے، مگر دنیا کو اپنی “مصروفیات” زیادہ عزیز تھیں۔ پھر وہ دن آیا۔۔۔ محمد کی حالت بگڑ گئی۔ ہم بے بس کھڑے دیکھتے رہے، اور ہمارے جگر کا ٹکڑا، ہماری آنکھوں کا نور، ہمارا ننھا محمد، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ “محمد!” میں چیخی، اسپتال کے در و دیوار لرز گئے، مگر محمد تک میری آواز نہ پہنچی۔ وہ خلا جو اس دن ہمارے دل میں پیدا ہوا، کبھی پُر نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک ماں کے لیے اپنی گود خالی ہونے کا درد ناقابلِ بیان ہے۔ ایک باپ کے لیے اپنے بچے کو بے بسی سے مرتا دیکھنا دنیا کا سب سے بڑا عذاب ہے۔ محمد کے بعد، میں نے خود سے وعدہ کیا کہ میں سوشل ورک کروں گی، اور اس پیغام کو ہر گھر تک پہنچاؤں گی: “خدارا! اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کی زندگی بچانے کے لیے شادی سے پہلے صرف ایک چھوٹا سا ٹیسٹ ضرور کروائیں۔ کہیں آپ کی لاعلمی، آپ کے خوابوں کا قتل نہ کر دے!” یہ صرف میری کہانی نہیں، یہ ہر اس ماں کی کہانی ہے جس نے اپنی گود اجڑتے دیکھی ہو۔ خدارا، اپنی خوشیوں کا خود قاتل نہ بنیں!
A Drop of Life

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

جشنِ مے فنگ میں سیاسی پیغام، کرامت علی جعفری

سلیم خان — عہدِ حاضر میں ادب کی خاموش خدمت کا استعارہ، یاسمین اختر ریسرچ اسکالر

50% LikesVS
50% Dislikes

ایک قطرہ زندگی، آمینہ یونس بلتستانی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں