جامعات کے اساتذہ ترقی سے محروم کیوں؟ڈاکٹر نذیر بیسپا
جامعات کے اساتذہ ترقی سے محروم کیوں؟
تحریر: ڈاکٹر نذیر بیسپا، اسسٹنٹ پروفیسر، جامعہ کراچی
راقم نے اس سے پہلے بھی اپنے ایک مضمون میں جامعات کے اساتذہ اور ان کی ترقی کی راہ میں درپیش رکاوٹوں کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح یونیورسٹی کا ایک استاد تمام شرایط پر اترنے کے باوجود اپنے تیس پینتیس سالہ تدریسی و تحقیقی کیرئیر میں پروفیسر بننے کی حسرت دل میں لئے ریٹائرڈ ہوجاتا ہے اور یہ تجویز دی تھی کہ یونیورسٹی اساتذہ کو بھی ديگر ملازمین کی طرح ترقی کے یکسان مواقع ملنا ضروری ہیں۔
پاکستان میں جامعات اور ان سے وابستہ اساتذہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے قومی سطح پر ایک اساتذہ تنظیم فپواسا (FAPUASA) پہلے سے موجود ہے لیکن اس کے اہداف و مقاصد عمومی نوعیت کے ہیں اورزیادہ تر پہلے سے وضع شدہ قوانین کی روشنی میں اساتذہ اور جامعات کی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے لیکن یہ تنظیم بی پی ایس اساتذہ کی ترقی کے بوسیدہ اور استحصالی طریقہ کار پر خاموش تماشائی ہے ۔ بی پی ایس کیڈر سے تعلق رکھنے والے اساتذہ پچھلے دو دہائیوں سے پیچیدہ اور مشکل طریقہ کار کے سبب اگلے عہدوں پر ترقی نہ پانے کے سبب شدید ذہنی اذیت اور بے چینی کے شکار ہیں ان میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ اس وقت زیادہ تر جامعات میں اساتذہ کی اکثریت لیکچرر یا اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے منسلک ہیں اور پروفیسر تبرک کے طور پر چند ایک باقی رہ گئے ہیں۔آئے دن اس مسئلے کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے لہذا اس سے قبل کہ بہت دیر جائے کوئی منطقی حل ڈھونڈنا نہایت ضروری ہوگیا ہے چناں چہ اسی مقصد کے حصول کے لیے بی پی ایس اساتذہ کی ایک نمائندہ تنظیم “آل پاکستان یونیورسٹی بی پی ایس ٹیچرز ایسو سی ایشن (APUBPSTA)” بن چکی ہے جس کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر سمیع الرحمن ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد بہت ہی واضح اور ایک نکتے پر مبنی ہے یعنی جامعات کے بی پی ایس اساتذہ کے لیے پروموشن کا ایک واضح اور آسان طریقہ کار وضع کرنا اور دیگر سول ملازمین کی طرح باقاعدہ سروس سٹرکچر کے حصول کے لیے کوشش کرنا، تاکہ اساتذہ پیچیدہ سلیکشن بورڈز کے استحصالی نظام میں الجھ کو ذہنی مریض بننے کے بجائے یکسوئی کے ساتھ تدریس و تحقیق پر توجہ مرکوز رکھ سکیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے اپوبٹا (APUBPSTA)کے پلیٹ فارم سے پچھلے تین سال سے کوشش و کاوش جاری ہے۔ ایچ ای سی کے سربراہان کے ساتھ اس موضوع پر کئی بار سیر حاصل اور مفید گفتگو ہوئی ہے۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی سے ملاقات کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر سے ملاقات کے بعد یہ معاملہ اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں زیر غور لایا گیا ہے اور اصولی طور پر اس مطالبے کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن ایچ ای سی کمیٹی کمیٹی کھیل کر اس معاملے کو الجھائے رکھنے اور زیادہ سے زیادہ مدت کے لیے ٹالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اگر ہم ایچ ای سی کی پالیسیوں کے تناظر میں جامعات میں تدریسی، تحقیقی اور انتظامی معاملات کے جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایچ ای سی کی پالیسیوں کے نتیجے میں تحقیقی مقالہ جات اور پی ایچ ڈی اسکالرز کی تعداد اور مقدار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن معیار بلند ہونے کے بجائے نیچے آ گیا ہے۔ معیار کے نام پر ملکی جامعات پر ایچ ای سی کی اجارہ داری قائم ہونے سے پہلے ملک میں معیاری تحقیقی کام ہو رہے تھے اگر چہ مقالہ جات اور پی ایچ ڈی کے سکالرز کی تعداد اور مقدار بے شک کم تھی لیکن معیار بہت بہتر تھا ۔ انتظامی معاملات میں بھی بہت پیچیدگی آگئی ہے اور جامعات ایچ ای سی کے تجربات کے لیے ایک لیب بن کر رہ گئی ہیں۔ جامعات کی خودمختاری چھن چکی ہے اور مقتدر ادارے اس پر انتظامی تسلط پانے کے لیے کوشان نظر آتے ہیں۔
اگر تحقیق و تدریس کی بات کی جائے تو بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایچ ای سی ملکی سطح پر اعلی تعلیم کو ترقی دلانا چاہتا ہے یا اس کو تنزلی کی طرف لے جانے کا خواہاں ہے کیوں کہ میرے مشاہدے کے مطابق کمیشن کی موجودہ پالیسی تمام تعلیمی شعبہ جات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتی ہے۔ تمام پالیسیاں ترقی یافتہ ممالک کی اندھی تقلید میں صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ جات کے تناظر میں مرتب کی جا رہی ہیں اور علم کی ایک نئی تعریف متعارف کرنے کے لیے کوشاں ہے کہ علم وہی ہے جس سے پیسہ کمایا جا سکے یا کوئی نئی چیز ایجاد کی جا سکے۔ بے شک علم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مادی لحاظ سے اہل زمین کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں لیکن مادی پہلو کے ساتھ انسانی زندگی کا ایک روحانی، معنوی اور ذہنی پہلو بھی ہے جس کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ فارسی اور فارمیسی کو ایک ہی نظر سے دیکھنا کہاں کا انصاف ہے؟ سائنسی علوم اور سماجی علوم کو ایک ہی پلڑے میں تولنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ جہاں سائنسی میدان کے اکتشافات کی قدردانی ہوتی ہے وہاں لسانیات و ادبیات اور سماجیات کے اساتذہی کی تحقیقات و تخلیقات کی بھی قدردانی ضروری ہے ۔ حوصلہ افزائی تو ایک طرف اب تو لسانیات و ادبیات کو ایک بیکار مضمون سمجھا جا رہا ہے اور جامعات اور کالجوں سے اس کو حذف کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جہاں جسمانی بیماریوں کی تشخیص و علاج کو اہمیت دی جاتی ہے وہیں سماجی مسائل کی تشخیص اور و معالجے کو بھی اہمیت دینا اتنا ہی ضروری ہے۔ معاشرتی زوال، اخلاقی بگاڑ، لسانی تنزل، نئی نسل کی زبان و بیان کی ناپختگی، نفسیاتی الجھنیں جیسے مسائل کا حل سماجی، لسانی اور ادبی علوم پر توجہ دئے بغیر ممکن ہی نہیں لہذا سماجی خدمات، ادبی تخلیقات، شاعری، نثرنگاری، افسانہ نگاری وغیرہ کو بھی ایک علمی خدمت سمجھ کر ان کو بھی ایک تحقیقی مقالے جتنا مقام دینا ضروری ہے۔ سماج اور ادب بہت وسیع اور مدلل مباحث کے متقاضی ہوتے ہیں لہذا ان مضامین سے متعلق اساتذہ کی ان موضوعات پر لکھی گئی تحقیقی اور تخلیقی کتب و رسائل کو بھی ایچ ای سی کے مسلمہ مجلات میں چھپنے والے مقالات جتنا درجہ ملنا اور ترقی پانے کے لیے ان کا تسلیم کئے جانا بھی ضروری ہے ۔
ہم سب یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ سرکار یا ایچ ای سی کی طرف سے سب سے زیادہ توجہ سائنسی مضامین پر دی جا رہی ہے اور خدا نخواستہ میں اس کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں لیکن سماجی علوم اور زبان و ادب کے مضامین کی سرپرستی بھی اتنی ہی ضروری ہے۔سرکاری اور ایچ ای سی کے پروجیکٹس، فنڈز اور اسکالرشپ میں سماجی علوم اور خاص طور پر زبان و ادب کے مضامین کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ نہ ہماری زبانوں کو جدید ٹیکنالوجی کے مطابق دنیا کی دیگر زبانوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آج تک کوئی پالیسی وضع کی گئی ہے لہذا کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ ہماری قومی زبان اردو سمیت دیگر مقامی زبانیں دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کا مقابلہ کر سکیں؟ جہاں تک میں اپنے مضمون فارسی زبان و ادب کی بات کروں تو عالم یہ ہے کہ ایران میں چھپنے والے مجلات کو بھی فارسی اساتذہ کی ترقی کے لیے تسلیم ہی نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی ثقافتی اور علمی میدان میں ایران کے ساتھ تعلقات یا باہمی تعاون کو کوئي اہمیت دی جاتی ہے جس کے سبب دیگر مقامی زبانوں کے ساتھ فارسی زبان و ادب کا شعبہ بھی رو بہ زوال ہے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے سماجی علوم خاص طور پر زبان وادب کے مضامین دیگر مضامین کی نسبت پیچھے رہ گئے ہیں اور ان مضامین سے وابستہ یونیورسٹی اساتذہ کی اگلے عہدوں پر ترقی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔
دوسری طرف جن مضامین کو سرکاری سرپرستی اور ایچ ای سی کی حمایت حاصل ہےاور اساتذہ اچھی شہرت کے ملکی اور غیر ملکی مجلات میں تواتر سے مقالات چھپوانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے ان اساتذہ کی ترقی کا بھی کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ درجنوں مقالہ جالات کے حامل اساتذہ کو بھی ترقی پانے کے لیے اگلے عہدے کی اسامی کا اشتہار چھپنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ نئے سرے سے درخواست دینی پڑتی ہے۔ پھر سکروٹنی کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر اس پل سے گزرنے میں کامیاب ہوجائے تو ڈوزئیر بیرون ملک ماہرین کو بھیجے جاتے ہیں۔ ان ماہرین کی طرف سے رپورٹ موصول ہونے کے لیے مزید انتظار کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹس مثبت ہوں تو پھر سے دوبارہ سلیکشن بورڈ اور سینڈیکیٹ کے جاں گسل مراحل کو طے کرنا پڑتا ہے اور اگر ان تمام مراحل سے گزرتے گزرتے اگر کوئی استاد بہت ہی خوش قسمت ثابت ہوا تو ریٹائرمنٹ سے دو چار سال پہلے وہ ایسوسی ایٹ یا پروفیسر بن جاتا ہے، نہیں تو یونیورسٹی اساتذہ کی اکثریت اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے ہی فارغ ہو جاتے ہیں اور پروفیسر بننے کی حسرت دل میں لئے گھر چلا جاتا ہے۔
اس کے برعکس یونیورسٹی کے انہی اساتذہ کے شاگرد جو کالجوں میں تدریسی شعبے سے منسلک ہو جاتے ہیں، فل پروفیسر بن جاتے ہیں اور ان کو پڑھانے والا یونیورسٹی استاد اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ حال ہی میں کراچی یونیورسٹی سے پچیس سال یونیورسٹی سے وابستگی اور درجنوں مقالہ جات کے مصنف ڈاکٹر ظفر اقبال شمس بطور اسسٹنٹ پروفیسر ہی ریٹائرڈ ہوگئے جو اس استحصالی نظام کے حوالے سے ایک استعارہ بن چکے ہیں۔ میرے اپنے شعبے میں ایک خاتون استاد جو بارہ سال لیکچرر کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر بھی بنے بغیر پچھلے مہینے ریٹائرڈ ہوگئیں جو جامعہ کراچی کے 2019 کے اشتہار کے تحت اگلے عہدے کے لئے امیدوار بھی تھیں۔ اسی طرح ہزاروں اساتذہ اس استحصالی نظام کی چکی میں پس رہے ہیں۔ جب سے میں جامعہ کراچی سے منسلک ہوں تب سے میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ کسی بھی اشتہار کے تحت ہونے والی تعیناتیوں کا سلسلہ دس سال سے قبل پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتا۔ اساتذہ تدریس و تحقیق کے بجائے احتجاج اور بھوک ہڑتال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ساری توانائیاں احتجاجی مظاہروں کی نذر ہوجاتی ہیں پھر بھی اگلے عہدوں پر بروقت ترقی کا خواب ادھورا اہی رہتا ہے۔
یونیورسٹی اساتذہ کو درپیش ان مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے وہ یہ کہ سلیکشن بورڈ کے بجائے پروموشن کا کوئی جامع اور قابل نظام وضع کیا جائے تاکہ اساتذہ ترقی کے لیے پریشان پھرنے کے بجائے یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ اپنے تحقیقی اور تدریسی فرائض پر توجہ دے سکیں اور منفی سیاست کا خاتمہ ہو سکے۔
جب ہم پروموشن کے نظام اور سروس سٹرکچر کی بات کرتے ہیں تو ایچ ای سی سمیت بعض اساتذہ بھی اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نظام سے جامعات میں تحقیق کو نقصان پہنچے گا اور جامعات بھی کالجو ں کی طرح بن جائیں گی۔ ان خدشات کے حوالے سے اپوبٹا (APUBPSTA) کی جانب سے بہترین اور قابل قبول تجاویز ایچ ای سی کے ذمہ داران کو فراہم کی گئی ہیں اور ایچ ای سی کی طرف سے تمام وائس چانسلر کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا گیا ہے۔ اگر ان تجاویز پر عمل کیا جائے تو ہر استاد کو بغیر پریشانی کے ان کا حق ملے گا۔
خلاصہ یہ کہ اساتذہ کوان کا جائز حق دلانے کے لیے پروموشن کا کوئی نظام رائج ہونا بہت ضروری ہے۔ اس سے تحقیق میں بہتری آئے گی کیوں کہ اساتذہ نسبتاً زیادہ پراعتماد اور سکون کے ساتھ تحقیق پر توجہ دے سکیں گے۔ تحقیق کے فروغ کے لیے اساتذہ کی مالی طور پر حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے یعنی جو اساتذہ جتنے زیادہ مقالہ جات شایع کریں ان کو اسی حساب سے انسینٹیو دیا جائے تاکہ ان کی تحقیق کو پذیرائی ملے یا یہ کہ تحقیقی معیار پر اترنے والے اساتذہ کو ایک مقررہ مدت اور مقالہ جات کی تکمیل کے بعد اشتہار یا سلیکشن بورڈ کا انتظار کئے بغیر فوری طوری پر اگلے گریڈ میں ترقی دی جائے اور جن کے مقالے کم ہوں ان کو کچھ تاخیر سے ترقی دی جائے لیکن ترقی کے کسی نظام کا سرے سے نہ ہونا ایک استاد یا ملازم کے ساتھ سراسر ناانصافی اور بہت بڑی حق تلفی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایچ ای سی کی پالیسیوں کے نفاذ سے پہلے اساتذہ پی ایچ ڈی کے بغیر صرف چند ریسرچ آرٹیکل یا مضامین کی تحریر و اشاعت پر ایک خاص مقررہ وقت میں آسانی سے پروفیسر بن جاتے تھے لیکن زمینی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر تحقیق کے میدان میں امریکا اور یورپ کا مقالہ کرنے کے چکر میں اساتذہ کو ایک بند گلی میں مقید اور ایک بحرانی کیفیت سے دوچار کر دیا گیا ہے۔