تجھ میں الجھن ہے میری جان ریاضی کی طرح. ثقلین مشتاق۔
تری ہر بات میں مانوں گا سپاہی کی طرح
مجھے اب تیری ضرورت ہے دوائی کی طرح
یہ نہ سوچو کہ ابھی عشق میں رسوا ہونگے
چال اب ہم نے بھی چلنی ہے کھلاڑی کی طرح
میں نہ پڑھ پایا تری ذات کا اک بھی صفحہ
تجھ میں الجھن ہے میری جان ریاضی کی طرح
جب کتاب آئے گی ہاتھوں میں تو چکرائے گا
جو سمجتا ہے مجھے آج اناڑی کی طرح
میں کہ غالب کے ہر اک شعر پہ قربان ہوا
ان کے اشعار میں لذّت ہے مٹھائی کی طرح
میں تقی میر کی اردو کا مکمل عاشق
بائیو پڑھتا ہوں ہمیشہ ہی نمازی کی طرح
تم نے دیکھی ہی نہیں میری محبت مشتاق
تم کبھی آنا میرے پاس سوالی کی طرح
ثقلین مشتاق۔
Load/Hide Comments