تاریخ گلگت بلتستان . چھوٹا سا ایک گاؤں تھا
چھوٹا سا ایک گاؤں تھا جس میں
دیے تھے کم اور بہت اندھیرا
اس چھوٹے سے گاؤں کے اندھیرے میں اس قدر وسعت تھی کہ ہم سے بچھڑے تمام احباب اس میں سما گئے ، ہمیں لگا تھا چھوٹا سا گاؤں ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک تمام احباب کو اپنے اندھیرے میں محصور رکھنے میں کامیاب نہیں ہوں گے مگر ہمارا اندازہ غلط نکلا جب جب جس جس کو حلقۂ یاراں اور متاعِ جاں جانا تب تب وہی مخصوص گروہ کو ہی گاؤں نے حصوصی طور پر اپنے اندھیرے میں بسنے اور اس میں مستقل مگن رہنے کا بندوست کیا۔ ویسے تو گاؤں سے ہماری بھی وراثتی شناسائی ہے اور یوں گاؤں کی رگ رگ سے واقف تھے مگر کافی عرصے سے اس سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے گاؤں کے مزاج اور اس کی خصلت میں آئی ہوئی تبدیلی سے شناسائی نہیں ہوئی اور ہم پرانے اقدار کے ماننے والے کے طور پر گاؤں کی جانب بڑھتے یاراں سے امیدیں وابستہ رکھنے کی غلطی کر بیٹھے ، ہمیں لگا گاؤں میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جن کی بدولت اس میں بسنے والوں میں بھی نکھار آئیں گے یعنی ان میں فطری پن کی موجودگی انتہا کو پہنچ کر پہلے سے زیادہ مکمل تعلق بنانے کی کوشش کی جائے گی ، مگر یہ محض ہماری خوش فہمی تھی ورنہ حقیقت یہ تھی کہ گاؤں اپنی فطرت شناسی، احساس ، محبت ، وفا، اخلاص ، قربانی اور سب سے بڑھ کر محبت کی روایت سے انحراف کر کے شہریوں سے آگے بڑھ گئے تھے۔ شہروں میں ویسے تو مطلبی فضا میں سب سانس لیتے ہیں اور اپنے آپ تک محدود آکسیجن کی فراہمی ہوتی ہے جس سے دوسروں کو کوئی سروکار نہیں مگر یادیں نامی دیوی نے اجتماعیت کا عنصر ذائل ہونے نہیں دیا ہے یعنی شہروں کی مصروف ترین زندگی اور مطلب سے بھرپور زندگی کے باوجود شہروں میں بسنے والے ہر فرد یادوں کا انبار لیے پھرتے ہیں یعنی تمام تر روایتی انداز و اطوار ترک کرنے کے باوجود یاد کا اندازِ پارینہ ترک نہیں کر پائے، یہاں شہروں میں ہر فرد جدید ہونے کے باوجود فرسودہ یادوں کے سہارے ہی جیتے ہیں۔ مگر۔۔۔
یادوں اور احباب شناسی کا رواج گاؤں کا خاصا ہوا کرتا تھا ، اجتماعیت پسندی اس کی پہچان ہوا کرتی تھی مگر اب نہیں معلوم کہاں کی ہوا لگ لگی گاؤں نے اس روش کو ترک کر کے سراسر انفرادیت کو تقویت دی ہے، اسی وجہ سے ہمارے احباب میں سے جنہوں نے اس اندھیرے کی جانب بڑھنے کی کوشش کی وہ ہمیشہ کے لیے اس کا حصہ بن گیا اور یوں مستقل بنیادوں پر ہم سے بچھڑے شاید گاؤں کی نئی خصلت کا اثر ان پر بھی پڑا جس وجہ سے ہماری یادیں بھی مکمل طور پر دم توڑتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں تن و تنہا شہر کی اجنبیوں میں چھوڑ جانے کی وجہ سے یادوں کا انبار لیے بھٹکتے رہتے ہیں اور شہر کی آبادی سے بھری ویرانی کو دیکھ کر صرف یہی کہہ پاتے کہ
تھی جن کے دم سے رونقیں گاؤں میں جا بسے
ورنہ ہمارا شہر یوں ویران تو نہ تھا