بَلتستان کو بہتر مستقبل کا مرکز بنایئے۔ آغا زمانی
بَلتستان کو بہتر مستقبل کا مرکز بنایئے۔
پچھلے دنوں مجھے ایک کالج کے استاد نے سکَردو کے مقامی ہوٹل میں میرے ایک اور دوست کے ساتھ ظہرانے پہ بلایا، دورانِ گفتگو اس استاد سے معلوم ہوا کہ وہ سکردو چھوڑ کے ایک عرب ملک میں پڑھانے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جب ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ بَلتستان میں اساتذہ کی تنخواہیں کم ہیں اور ہمارے گھریلو مسائل اور اخراجات زیادہ ہیں جس کی وجہ سے یہاں رہنا میرے لئے مشکل ہوگیا ہے۔ میں یہاں ایک کالج میں پرائیویٹ طور پر پڑھانے جاتا ہوں۔ باہر ملک مجھے اچھی آفر ہے کچھ سال باہر رہونگا اور کچھ پیسے کماکر کراچی یا اسلام آباد منتقل ہوجاؤنگا اور وہیں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم بھی دلواؤنگا اور وہیں رہونگا۔
جب میں نے ان سے پوچھا سکَردو کی زمین اور گھر کا کیا کرینگے؟ تو جواب دیا سکردو کی زمین اور مکان فروخت کرکے چلا جاؤنگا۔ اس پر میں نے ان سے اختلاف کیا اور معذرت کے ساتھ عرض کی کہ آپ جیسے آگاہ اور پڑھے لکھے انسان کو آنے والی نسل کا مستقبل بَلتستان کو قرار دینا چاہئے، اگر بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے اور انہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں تو بَلتستان کو ترقی دینے کے حوالے سے شعور اجاگر کریں، بلتستان خاص طور پر سکَردو چھوڑ چھوڑ کے دیگر علاقوں یا ملکوں کی جانب کوچ کرجانے کے عمل نے بَلتستان کو اب تک ترقی کے ان عظیم مراحل سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے جس کا یہ خطہ حقدار ہے۔ اگر یہی رجہان جاری رہا تو بَلتستان پر غیر مسلموں اور غیر ملکیوں کا راج ہوگا۔
کچھ اطلاعات کے مطابق انویسٹر کے نام پر شگر اور سکَردو میں جاپان، جرمنی اور دیگر غیر ملکی شہریوں نے بھی کئی جگہ زمینںں خریدیں ہیں اور ان زمینیوں پر پرجیکٹس کی تعمیر بھی تیزی سے جاری ہے۔ یہ امر یقیناً اس حساس اور متنازعہ علاقے کے باسیوں کے لئے تشویش کا باعث ہے۔
بَلتستان میں اندرون اور بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کو خوش آمدید کہیئے، ان کی خوب خدمت کیجئے اور یقیناً مہمان نوازی اور اچھے اخلاق سے پیش آنا یہاں کے باسیوں کی خصوصیت ہے، لیکن مہمان کو مالک نہ بننے دیجئے۔ اس خطے کو غیر ملکیوں کی آماجگاہ بننے سے بچایئے۔ وقتی اور ذاتی مفاد کی خاطر اس علاقے کی زمینوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے سے اجتناب کیجئے۔ غاصب صہیونی ریاست نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پر کس طرح قبضہ کیا یہ تو ہر باشعور فرد جانتا ہوگا۔ آج اگر گوگل میپ پر فلسطین نام کا ملک تلاش کرینگے تو آپ کو نہیں ملے گا، اس کے شہر آپ کو مل جائیں گے لیکن وہ غاصب صہیونی ریاست کے شہروں کی حیثیت سے نقشے پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ عبرت کے لئے کافی ہے۔ اہلَ بلتستان کو شعور و آگاہی کو فروغ دینا ہوگا۔
ضرورت، مجبوری اور وقتی ترجیحات کے پیش نظر دیگر علاقوں یا ملکوں کی جانب کوچ کرجانا فطری ہوتا ہے۔ بَلتستان والے اعلیٰ تعلیم کے لئے اور کمانے کی غرض سے اور اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے بھی پوری دنیا میں کہیں بھی جائیں لیکن اپنا ہدف اور مستقبل دیگر ملکوں یا شہروں کو نہ بنائیں بلکہ واپس آکر بلتستان کو بہتر مستقبل کا مرکز بنائیں۔ تاکہ ہم اپنی عظمتِ رفتہ سے مضبوطی سے جڑے رہیں۔