قوم کے معمار ! پروفیسر قیصر عباس!
قوم کے معمار !پروفیسر قیصر عباس!
urdu news,Architects of the nation
کسی بھی مہذب معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہر شبعہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین اساتذہ کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔جج، جرنیل، بیوروکریٹ، ڈاکٹرز ،انجینئرز ،کاروباری اور صنعتی شبعہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین اساتذہ کی وجہ سے ہی معاشرے میں اہم مقام حاصل کرتے ہیں۔اگر آپ نے معاشرے کی درجہ بندی کرنی ہو تو اس کا ایک ہی طریقہ کار ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے اس معاشرے میں استاد کا کیا مقام ہے؟بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سب سے زیادہ یہ طبقہ حکمرانوں کے نارواسلوک کی وجہ سے متاثر ہوا ہے ۔یہ پیغمبری پیشہ کے حامل بے ضرر افراد حکمرانوں کی ظلم وجبر پر مبنی پالیسیز کا شکار ہو چکے ہیں ۔ان کو دی جانے والی تنخواہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا موازانہ کریں تو یہ بات سمجھنے میں خاصی دشواری آئے گی کہ آخر یہ عزت نفس رکھنے والے سفید پوش افراد کسطرح گزارا کر رہے پیں؟۔صوبہ پنجاب کی اشرافیہ اور جاگیر داروں کی باقی صوبوں سے زیادتیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر بدقسمتی سے اب اس طبقے نے پنجاب کے ہی سرکاری ملازمین کو نشانے پہ رکھ لیا ہے۔ایک غیر منتخب اور غیر آئینی وزیر اعلیٰ جس کی صرف یہ خوبی ہے کہ یہ کرپٹ سیاستدانوں کے تلوے چاٹ کر آج پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہے ،نے ایسے انتظامی فیصلے کئے ہیں جس نے سرکاری ملازمین کی کمر توڑ دی ہے ۔تنخواہوں میں وفاق کی طرز پر اضافہ نہیں کیا گیا۔بلکہ leave in cashment کو ہی ختم کر کے سرکاری ملازمین کی پیٹھ میں ایسا چھرا گھونپا ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔کل جب ایک صحافی نے غیر آئینی وزیر اعلیٰ سے سوال کیا کہ” قوم کے معمار سڑکوں پہ احتجاج کررہے ہیں” تو اس شخص نے فرعون کے لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ “یہ لوگ اپنے متعلقہ افسران سے ملیں۔”اس جواب میں فرعونیت جھلک رہی تھی مگر یہ بات غیر آئینی وزیر اعلیٰ کو یاد رکھنی چاہئے کہ یہ اقتدار دو دن کا ہےاگر ایسے کام کئے گئے urdu news,Architects of the nationجس کی وجہ سے ان سرکاری ملازمین کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے تو اقتدار تو آج ہے کل نہیں ہے مگر لعنت ہمیشہ پیچھا کرے گی۔دوسرا ظلم ان ملازمین سےکیا ہے جو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ان لوگوں نے اپنی جوانی کے بہترین دن اس ملک عزیز کو دیئے ان بوڑھوں کو عمر کے اخری حصے میں گورنمنٹ کے سہارے کی ضرورت ہے مگر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ان بوڑھے پنشنرز کے ساتھ بھی ہاتھ کر دیا گیا ہے۔اساتذہ تو اساتذہ حتیٰ کہ وہ طبقہ حو کہ سرکاری مشینری کا کل پرزہ ہے یعنی جس کے بنا ٹھنڈے کمروں میں بیھٹے ہوئےبڑے بڑے بابوایک آرڈر بھی ٹائپ نہیں کر سکتے جس طبقے کی بغیر نہ تو سکرٹریٹ چل سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور سرکاری دفتر یعنی کلریکل سٹاف بھی اس ظلم کا نشانہ بنا ہے محسن نقوی کو مراد راس سے ہی سبق سیکھنا چاہئے ایک دفعہ سکول ٹیچرز اپنے مطالبات کے لئے لاہور میں احتجاج کر رہے تھے تو مراد راس نے اپنے ٹوئیٙٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کیا تھا “Zero Pressure “.لیکن خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔پھر وہ وقت بھی آیا جب تحریک انصاف کی پنجاب کی حکومت ختم ہوئی اور نئے انتخابات کے لئے تحریک انصاف نے ٹکٹیں تقسیم کی تو مراد راس کی ٹکٹ کے لئے دی ہوئی درخواست کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور اب مراد راس ماضی بن چکا ہے ۔اب استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو کر اپنی سیاست بچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔اس کی گردن میں بھی سریا آگیا تھا لیکن قدرت نے اسے نشان عبرت بنا دیا ہے۔محسن نقوی کو بھی اس دن سے ڈرنا چاہئے جس دن یہ بھی نشان عبرت بن جائے گا۔اگر اتنی ہی معاشی مشکلات ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا تو پھر اشرافیہ اپنے اخراجات کم کیوں نہیں کر رہی؟ ایک طرف ہم عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ایک ایک ڈالر کےلئے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں تو دوسری طرف سرکاری خرچے پہ اشرافیہ کے خاندان نہ صرف خاندان بلکہ نوکروں اور نہ صرف نوکروں بلکہ ان کے اہل وعیال بھی حج اور عمرے کر رہے ہیں ۔حالانکہ یہ لوگ اتنے صاحب حثیت ہیں کہ اپنے خرچے پر بھی حج کے لئے جا سکتے ہیں ۔ لیکن مفت خوری اور حرام خوری کا ایسا لہو ان کے منہ کو لگا ہوا ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے ایک طرف عوام کو بدتر معاشی حالات کے نوحے سنائے جاتے ہیں تو دوسری طرف اس ماتمی ماحول میں رنگ و نور کی محفلوں کا انعقاد کیا جاتا ہےurdu news,Architects of the nation ۔یہ دہرے میعار کیوں ؟ملک کے معاشی حالات سرکاری ملازموں کی تنخواہوں کی بڑھوتری کے وقت خراب کیوں ہوجاتے ہیں ؟لیکن جب اس اشرافیہ نے عیاشایاں کرنی ہوں تب برے حالات اچھے حالات میں کسطرح بدل جاتے ہیں؟اس لئے پنجاب حکومت کے وزیر اعلیٰ سرکاری ملازمین کی بددعاوں اور آہوں سے بچیں ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد کروائے اور تاریخ میں ایک اچھے حکمران کے طور پر اپنا نام لکھوا لیں ورنہ تاریخ انہیں نشان عبرت بنا دے گی۔ urdu news,Architects of the nation