سموگ ! ذمہ دار کون؟ پروفیسر قیصر عباس
سموگ ! ذمہ دار کون؟ پروفیسر قیصر عباس
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ سموگ ہے کیا؟ماہر ماحولیات کے مطابق موسمی تبدیلی کے دوران انورزن کے عمل کی وجہ سے بادل زمین کی سطح پر آجاتے ہیں اور عام طور پر سورج نکلنے کے بعد اس کی تپش کی وجہ سے غائب ہو جاتے ہیں جسے ہم فوگ یا دھند کہتے ہیں ۔آج جس دھند کا ہم سامنا کر رہے ہیں یہ فوگ نہیں بلکہ سموگ ہے۔سموگ ایک فضائی آلودگی ہے جو انسان کی دیکھنے کی صلاحیت کم کر دیتی ہے ۔ یہ لفظ پہلی دفعہ 1900ء میں دھند اور کوئلے کے ملاپ کے لئے سننے میں آیا تھا.یہ دھواں کوئلے جلنے کی وجہ سے بنتا ہے۔موجودہ دور میں صنعتی علاقوں میں سموگ کثرت سے دیکھی جاتی ہے اور شہروں میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے۔سموگ کالی یا پیلی دھند کانام ہےجو فضا میں آلودگی سے بنتی پے۔ Volatile Organic Compound s کے ذرات کی بڑی تعداد سموگ میں ہوتی ہے۔یہ ذرات گیس ٫مٹی اور پانی سے مل کر بنتے ہیں۔صنعتوں ٫گاڑیوں اور کوڑا کرکٹ جلانے سےسلفر ڈائی آکسائڈ اور نائٹروجن کی بڑی مقدار ذرات میں شامل ہوجاتی ہےاور جب سورج کی کرنیں ان ذرات پر پڑتی ہیں تو یہ سموگ کی شکل اختیارکر لیتے ہیں اور یہ ذرات فضا کو آلودہ کر دیتے ہیں۔جب سردیوں میں ہوا کی رفتار کم ہوتی ہے تو دھواں اور دھند جمنے لگتے ہیں تو نتیجہ سموگ کی شکل میں نکلتا ہے۔سموگ دمہ ٫آنکھوں میں جلن ٫گلے میں خارش ٫نزلہ زکام اور پھیپھڑوں کے انفیکشن کا باعث بنتا ہے۔سموگ سے پودوں کی افزائشِ پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔اس کی وجہ سے فصلوں اور جنگلات کو بھی نقصان ہوتا ہے۔دورے حاضر میں سموگ سے برصغیر کے دو بڑے ممالک یعنی پاکستان اور ہندوستان بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔دونوں ملکوں کے بڑے شہر آلودگی کے حوالے سے باقی دنیا سے سبقت لے چکے ہیں۔گزشتہ سال بھی انڈین پنجاب کے کسانوں نے دہان کی باقیات کو آگ لگائی تھی جس کا خمیازہ پاکستانی پنجاب کو بھی بھگتنا پڑا تھا پچھلے سال کی طرح اس سال بھی پنجاب کے بیشتر شہروں کو سموگ نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔اہل پنجاب دکھائی نہ دینے کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل کا بھی سامنا کر رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں کام کرنے کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔خاص کر تعلیمی اداروں میں چھٹیاں دی جارہی ہیں جس کی وجہ سے طالب علموں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔یہ تو صرف ایک شعبہ زندگی ہے لیکن باقی شعبے بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔یورپ میں بھی صنعتی انقلاب آیا تھا مگر اس انقلاب کے ساتھ آلودگی کی شکل میں جو تباہی آنی تھی اس کا سدباب کر لیا گیا۔اب وہاں صنعتی انقلاب تو ہے لیکن تباہی نہیں۔جب کہ ہمارے ہاں جہاں یہ انقلاب آیا تو ہم اس سے آنے والی تباہی کاسدباب نہیں کر سکے ۔ہماری فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں جہاں بہت سے گھروں کے چولہے جلا رہا ہے وہی اس دھویں سے ماحول آلودہ ہوگیا ہے اور کئی گھروں کے چراغ مختلف مہلک بیماریوں کا شکار ہو کر بجھ گئے ہیں۔ہماری بیشتر فیکٹریوں کا wastage دریاؤں میں پھینک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف پانی آلودہ ہو رہا ہے بلکہ آبی حیات کے لئے بھی زندگی مشکل بنا دی گئی ہے۔سڑکوں پر چلتی ہو گاڑیاں ٫رکشے ٫ٹرک اور موٹر سائیکلیں دھواں چھوڑ چھوڑ کے موت بانٹ رہی ہیں۔یہ صرف فضائی آلودگی نہیں بلکہ شور کی آلودگی کا بھی باعث بنتے ہیں ۔ہم نے قدرت کے اس احسان کو مثبت کی بجائے منفی استعمال کیا تو یہی گاڑیاں ہمارے لئے وبال جان بن چکیں ہیں ۔درختوں کو کاٹ کاٹ کر اور زرخیز کھیتوں کو اجاڑ کر ہم نے ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا دی ہیں۔وہ زمین جن کا سینہ چیر کر ہمارا دہقان ہمیں گندم اور چاول فراہم کرتا تھا اسی زمین کے سینے میں ہم نے بجری سیمنٹ اور سریا گاڑ دیا ہے۔اس سال گندم کی کٹائی سے پہلے گندم کا بحران پیدا ہوگیا تھا اور لوگوں نے لائنوں میں لگ کے آٹا حاصل کیا تھا جس کی وجہ سے بعض جگہوں پر بھگدڑ مچ گئی تھی اور کئی قیمتی جانیں لقمہ اجل گئی تھی۔ان ہاؤسنگ سوسائٹیز سے ایک طرف شہروں کی پرانی شکل تبدیل ہوگئی اوردیہاتوں سے لوگوں نے شہروں کا رخ کر لیا ہے جس کی وجہ سے شہروں کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہوچکا ہے ۔پراپرٹی ٹیکون ان زرخیز زمینوں کو خرید کر ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کر رہے ہیں ۔اپنی تجوریاں پیسوں سے بھر رہے ہیں مگر پاکستانی عوام کے حصے میں سموگ آرہی ہے۔اس سال ملتان میں ہی آم کے درختوں کو کاٹ کر اس جگہ پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا دی گئیں ہیں اور کٹنے والے درختوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔اب یہ کون سا کم عقل انسان ہے جو یہ نہیں سمجھتا کہ درخت نہ صرف پھل مہیا کرتے ہیں بلکہ آکسیجن پیدا کرنے کا ایک قدرتی ذریعہ بھی ہے ۔پلاسٹک کے شاپنگ بیگز نے جہاں دیہاتوں میں ہماری زمینوں کا بیڑا غرق کیا ہے وہاں شہروں میں ہمارے سیوریج سسٹم کو تباہ کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک ہلکی سی بارش بھی شہر کو تالاب میں تبدیل کر دیتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کون ہے ؟تو اس آسان سا جواب یہ ہے کہ اس کی ذمہ دار حکومت کے ساتھ ساتھ ہر پاکستانی شہری بھی ہے۔اگر ہر تھوڑی سا ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں تو اس مسلے سے نبٹا جا سکتا ہے۔سب سے پہلے تو سرکار کو نجی ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کرنی چاہے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا چائے اس کا دوہرا فائدہ ہوگا پہلا یہ کہ پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں کمی واقع ہو گی اور دوسرا شور اور فضائی آلودگی کنٹرول میں رہے گی۔اس کے بعد پلاسٹک بیگ جس نے شہری سیوریج سسٹم کو تباہ کر دیا ہے اور دیہات میں زرخیز زمینوں کا بیڑا غرق کردیا پر پابندی لگا کر ماحول دوست شاپنگ بیگ متعارف کروائے جائیں۔ہمارے ارباب اختیار کو دیہات میں تعلیم وصحت سمیت تمام سہولیات فراہم کرنی چاہیے تاکہ دیہات سے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی رک جائے اور شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول کیا جاسکے۔ فیکٹری مالکان کو بھاری جرمانے کئے جائیں جو زہریلا فضلہ دریاؤں یا ندی نالوں میں پھینک کر زیر زمین پانی کو زہریلا بنا رہے ہیں۔سب سے بڑھ کر عوام میں شعور و آگاہی پیدا کی جائے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ ہمیں صاف ستھری ہوا میسر آسکے۔جو حکومتی سطح کے اقدامات ہیں وہ حکومت کرے اور جو عوامی سطح کے کام ہیں وہ عوام کرے تو ہم اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو سموگ کی شکل میں ہم پر نازل ہوا ہے۔اگر ہم ایسے ماحول دوست اقدامات نہیں کر پاتے تو مجموعی طور پر ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں ۔
پروفیسر قیصر عباس!
Urdu news, Urdu column, What is smog?