urdu news update Independence Day of Gilgit-Baltistan 0

جشنِ آزادی گلگت بلتستان کی تاریخ اور ہم ، یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان کا رقبہ تقریباً 72971 مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً 18 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ہمارے یہاں کی زبانوں میں شینا، بلتی، بروشسکی، کھوار اور وخی نمایاں ہیں، جن میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان شینا ہے۔ یہ خطہ قدرتی حسن، بلند و بالا پہاڑوں، گلیشیئرز، اور برف پوش وادیوں کی سرزمین ہے۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی یہی واقع ہے۔ قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش جیسے عظیم پہاڑی سلسلے یہاں آکر ملتے ہیں دنیا کی نظریں جہاں پر ہیں ۔۔۔۔ہم اپنے مضمون کی طرف لوٹ آتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ہر علاقے کی ایک کلچرل شو اس علاقے کی علامت ہوتی ہے لیکن گلگت بلتستان کی آزادی کے دن استور سکردو دیامر گلگت ہنزہ گلگت بلتستان کے ذیلی ثقافتیں کئی اختلاف اور کئی مماثلت رکھتے ہیں اس میں حراموش گلگت اور دیامر کے کلچر ایک جیسا ہے ۔ہنزہ اور نگر کا کلچر ایک جیسا ہے بلتی اور تبت کا کلچر شو ایک جیسا ہے ان سب کا نمائش ہوتا ہے سارے اپنے کلچر کو یوم آزادی کے دن شو کرتے ہیں جس میں کئی میں سے کچھ مماثلتیں پائی جاتی ہے تو کئی مختلف مگر دن جشن آزادی منانا ہے جشن آزادی میں چھوٹی بچیوں کو سجانا چاہئے مگر اس کے سروں میں چادر ہوں لیکن اسٹائل کپڑے پہن کر ڈانس کرنا ہماری کلچر اور اقدار میں شامل نہیں البتہ جوان کر سکتے ہیں اس دن بھی ہم وہی خوشی مناتے ہیں جو سولہ دنوں کی آزادی ملی تھی ہم اگر سارے گلگت بلتستان کا ایک ہی کلچرل رکھے تو درست رہے گا کلچرل شو میں سارے علاقوں کا مختلف کلچر پیش کرنا ہمیں ایک دوسروں سے جدا کر دیتا ہے کارئین و سمائین یہ کہہ رہے فلاں علاقے کا کلچر ایک ہے اسی طرح دوریاں بڑھ جاتی ہے ملگری ، گارائی ۔وطن دار اور علاقہ اور گاؤں پرستی بڑھ جاتی ہے جہاں سے دشمن ہمیں اور ہماری اتفاق میں فوڈ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہمیں مذہبی منافرت کو بھلا کر گلگت بلتستان بن کر سامنے آ نا بچ چاہیے سارے مل کر ایک ہی لباس ٹوپی میں اپنے بزرگوں اور شہیدوں کے مزار پر حاضری دے کر دعائیں کرنا چاہتے ۔ہم اسلامی ملک میں رہتے ہیں ہم انگلش پرسن نہیں ہے ماڈرن لفظ نے ہمیں تباہی کیا ہوا ہے ۔
پاکستان میں بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کے ملک کے ایک حصے میں جشنِ آزادی دو مرتبہ منایا جاتا ہے 14 اگست کو بھی اور یکم نومبر کو بھی۔ اس دوہری خوشی کے پیچھے ایک طویل اور تاریخی جدوجہد چھپی ہوئی ہے جو گلگت بلتستان کے بہادر عوام کی قربانیوں سے عبارت ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جو اپنی جغرافیائی، ثقافتی اور دفاعی اہمیت کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کی آزادی کی کہانی دراصل قومی غیرت، اتحاد اور شعور کی ایک شاندار مثال ہے۔
1842ء میں ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے کمانڈر زور آور سنگھ نے گلگت بلتستان پر حملہ کیا۔ 1860ء تک پورا علاقہ ڈوگرہ راج کے قبضے میں چلا گیا۔ بعد ازاں یہ خطہ کشمیر کے زیرِ انتظام آیا، اور انگریزوں و ڈوگروں نے مل کر یہاں حکومت قائم کی۔ 1935ء میں برطانوی حکومت نے یہ علاقہ ساٹھ سال کے لیے لیز پر لے لیا، مگر قیامِ پاکستان سے دو ہفتے قبل اچانک لیز ختم کر کے اسے دوبارہ ڈوگرہ راج کے حوالے کر دیا۔
اس وقت جموں و کشمیر کی ریاست چار بڑے حصوں پر مشتمل تھی: جموں، کشمیر، گلگت، اور لداخ۔قیامِ پاکستان کے بعد جب کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ابھی باقی تھا، گلگت کے عوام نے اپنا فیصلہ خود کیا۔ انہوں نے کشمیر کے بجائے براہِ راست پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کا اعلان کر دیا۔
یکم نومبر 1947 کو گلگت کے بہادر سپاہیوں اور عوام نے بغاوت کر کے ڈوگرہ راج کا خاتمہ کر دیا۔
اس وقت گلگت اسکاؤٹس کے کمانڈر ایک برطانوی افسر میجر ولیم براؤن تھے، جنہوں نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر ڈوگرہ گورنر کو گرفتار کیا اور گلگت کو آزاد کرایا۔یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ یکم نومبر کو یومِ آزادی کے طور پر مناتے ہیں — کیونکہ اس دن انہیں نہ صرف ڈوگرہ راج بلکہ غیر مسلم حکمرانوں اور برطانوی اثر سے بھی نجات ملی۔
اس تاریخی فتح کے بعد گلگت کی فضاؤں میں سب سے پہلا پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔
بعد ازاں 1948ء میں ایک سال کی جدوجہد کے بعد بلتستان کو بھی بھارتی تسلط سے آزاد کرایا گیا۔
یوں گلگت بلتستان مکمل طور پر آزاد ہو کر پاکستان کے ساتھ جڑ گیا۔تاہم یہ آزادی زیادہ دیر تک خودمختار نہیں رہ سکی۔ جنگِ آزادی کے نتیجے میں قائم ہونے والی آزاد حکومت صرف 16 دن تک برقرار رہی۔
28 اپریل 1949ء کو ہونے والے معاہدہ کراچی کے تحت اس خطے کو پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں دے دیا گیا۔
تب سے آج تک گلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ انتظام ہے، اگرچہ آئینی طور پر ابھی اسے مکمل صوبے کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔
گلگت بلتستان کے عوام آج بھی اسی جوش و جذبے سے دوہرا جشنِ آزادی مناتے ہیں
14 اگست کو پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کے اظہار کے طور پر،…
اور یکم نومبر کو اپنی مقامی جنگِ آزادی کی یاد کے طور پر۔
یہ دن اس بات کی علامت ہے کہ آزادی صرف ایک سیاسی عمل نہیں، بلکہ ایک فکری اور قومی شعور کی علامت بھی ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی طاقت، وحدت، اور حب الوطنی سے ثابت کیا کہ آزادی دی نہیں جاتی چھینی جاتی ہے۔تحریر یاسر دانیال صابری

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

شگر ضلعی ٹریفک نظام میں بہتری، منشیات کی روک تھام، غیر قانونی گاڑیوں کے خلاف کارروائی اور چھومک پل پر پولیس چیک پوسٹ کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا

عالمی شہرت یافتہ ننھے ولاگر محمد شیراز اور مسکان کی اپنے لوگوں سے دلی محبت، دانش میرزا تھلوی

عشق نے تپتے ہوئے صحرا کو وہ دوام بخشا جو قیامت تک توجہ کا مرکز بن گیا۔آمینہ یونس سکردو ،بلتسان
urdu news update Independence Day of Gilgit-Baltistan

50% LikesVS
50% Dislikes

جشنِ آزادی گلگت بلتستان کی تاریخ اور ہم ، یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں