ایلیمنٹری ا سکول ٹیچرز کی احساسِ محرومیاں
ایلیمنٹری ا سکول ٹیچرز کی احساسِ محرومیاں
کسی بھی قوم کی سماجی و معاشی ترقی کا دارو مدار وہاں کے تعلیمی نظام پر ہوتا ہے۔ آج کی ترقی یافتہ قومیں اگر مختلف میدانوں میں یکے بعد دیگرے معرکے سرکرتی جارہی ہیں تو یہ محض تعلیمی ترقی کی بنیاد پر ہے۔ آج انسان نے خلاؤں کو تسخیر کیا ہے سمندروں کے سینے چیر دیے ہیں تو سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کی بدولت ہے۔ تعلیمی ترقی کے لئے نئی نسل کے اذہان کو اس انداز میں پروان چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بل بوتے پر مستقبل میں یہ افراد ستاروں پر کمند ڈال سکیں۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں ایک شاندار مستقبل کے حصول میں ہراول دستے کا کردار اس قوم کے اساتذہ ادا کرتے ہیں۔ اساتذہ کی جتنی تکریم ہوگی اتنی ہی اس قوم میں ترقی کے امکانات موجود ہوں گے۔ وہ اساتذہ ہی ہیں جو نئے اذہان کے بند دریچوں کو کھول دیتے ہیں، فکر کو جلا بخشنے میں کوئی کسر نہیں رہنے دیتے ہیں اور نئی نسل کی کردار سازی کے ذریعے ایک روشن مستقبل کو یقینی بناتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اساتذہ کی اتنی قدر ومنزلت نہیں جتنی دوسرے باشعور قوموں کے افراد کی نظر میں ہیں۔ اور جہاں تک بات گلگت بلتستان کی ہے تو یہاں کے مسائل تو کچھ منفرد نوعیت کے ہیں۔ تمام تر وسائل اور اختیارات پر قبضہ وفاق کے پاس ہونے کی وجہ سے یہاں کے اساتذہ ہمیشہ سے پسا ہوا طبقہ بنے ہوئے ہیں۔ مزید برآں ایلیمنٹری سکول ٹیچرز جو کہ سکیل نمبر چودہ میں رہ کر نئی نسل کی ذہنی آبیاری میں ہمہ وقت مصروف عمل ہیں، ان کی احساسِ محرومیاں تو کچھ الگ ہی ہیں۔ آج کی اس تحریر کے توسط سے ای ایس ٹیز کے مسائل کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی۔
گلگت بلتستان میں ایلیمنٹری سکول ٹیچرز کی تعداد 4196 ہیں۔ ان میں سے بیشتر اساتذہ سینئر ای ایس ٹیز پر مشتمل ہیں جن کی بھرتیاں سن 2000 اور 2001 کے دوران ہوئی ہیں۔ ان ایام میں اساتذہ کی بھرتی سکیل نمبر سات میں ہوتی تھی، پھر سالوں بعد سکیل نو ملتی تھی اور عشروں انتظار کے بعد سکیل چودہ ملتی تھی۔ یوں بہت سارے سینئر ترین اساتذہ سکیل نو یا بمشکل سکیل چودہ ملنے کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔ پھر حکومتی پالیسی تبدیل ہوئی۔ نچلی سکیلز کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا یوں یکم جولائی 2011 کو جب صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکو مت تھی اس وقت سکیل 9 کے تمام اساتذہ کو ون سٹیپ پروموشن کی نوٹیفیکیشن کے ذریعے سکیل 14 سے نوازا گیا۔ اگلی پالیسی کے مطابق اساتذہ کی تکریم میں اضافے کی خاطر سکیل 14 کو اپ گریڈ کرکے سکیل 16 دیا جانا تھا لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
ای ایس ٹیز کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو 4 نومبر 2011 کو ٹیسٹ کے ذریعے براہ راست سکیل 14 میں بھرتی ہوئے۔ اس دفعہ یکمشت 200 سے زائد مرد و خواتین اساتذہ تعینات ہوئے۔ ان میں سے بیشتر اساتذہ ایم اے ایم ایس سی بمعہ بی ایڈ ڈگری رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ سب سے پسا ہوا طبقہ ہے۔ ان اساتذہ کرام کو نہ ون سٹیپ پروموشن ملی ہے اور نہ ہی ٹائم سکیل کے ذریعے اپ گریڈیشن نصیب ہوئی ہے۔ سن 2011 کے بعد گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں ہائیر سیکنڈری سطح یعنی گیارہویں اور بارہویں کلاسز کے اجراء کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ اگرچہ ای ایس ٹیز کی جاب ڈسکرپشن کے مطابق انہیں ایلیمنٹری کلاسز یعنی پاکستان میں رائج تعلیمی سطوح کے مطابق کلاس ششم تا ہشتم تک کے بچوں کی تعلیم ان اساتذہ کی ذمہ داری میں شامل ہے لیکن یہ اساتذہ اپنی مراعات اور تنخواہوں سے بڑھ کر مہربان ہوتے ہوئے سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری کلاسز کو پڑھا رہے ہیں۔ چونکہ ان میں سے بیشتر اساتذہ پہلے سے ہی مختلف پبلک سکولز (رائج اصطلاح کے مطابق) یعنی نجی سکولوں میں ہائیر سیکنڈری لیول کو پڑھا رہے تھے تو انہوں نے قوم پر احسان کرتے ہوئے گورنمنٹ کے ماتحت مختلف مڈل سکولوں میں ہائی کلاسز اور ہائی سکولوں میں ہائیر سیکنڈری کلاسز کو پڑھانے کی اضافی ذمہ داری اپنے سر پر لے لی۔اور اس سلسلے میں روزافزوں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ لیکن 12 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان اساتذہ کو اپنے حقوق سے محروم رکھنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
بعد ازآں 2017 اور 2021 میں بالترتیب این ٹی ایس اور سی ٹی ایس پی کے ذریعے ایلیمنٹری سکول ٹیچرز کی ایک بڑی تعداد بھرتی ہوکر آئی۔ اس دفعہ 2011 سے بھی بڑھ کر قابل ترین لوگوں نے محکمہ تعلیم گلگت بلتستان سے ناطہ جوڑ لیا۔ یہ سب کے سب اساتذہ بھی اعلیٰ تعلیم سے لیس بمعہ پروفیشنل ڈگری کے نجی اداروں کے اعلیٰ مراعات چھوڑ کر حکومتی اداروں میں معمولی سی تنخواہ پر بطور ای ایس ٹی سکیل چودہ میں تعینات ہوگئے۔ اور عوامی طبقے کے محروم بچوں کی خدمت کی ٹھان لی۔ کام کی نوعیت کے لحاظ سے یہ طبقہ بھی اعلیٰ مراعات اور اعلیٰ سکیلز کے حقدار افراد پر مشتمل ہے لیکن ابھی تک یہ افراد بھی اسی سکیل میں معمولی سی مراعات کے ساتھ گزاراہ کرنے پر مجبور ہیں۔
معلوم یہ بھی ہوچلا ہے کہ 2011 میں اپوائنٹ ہونے والے اساتذہ کی ایک مخصوص تعداد کو بی ایڈ پاسنگ ڈیٹ سے سکیل 16 سے نوازا گیا ہے۔ ان پروموشنز کو بنیاد بنا کر دیگر بعض اساتذہ نے بھی اپنی پروموشنز کے لئےمحکمہ سے اپیل کی۔ لیکن کوئی پیشرفت نظر نہیں آئی تو عدلیہ کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ ابھی کیس کی نوعیت اساتذہ کے حق میں ہیں کیونکہ اساتذہ اپنے جائز حقوق کے لئے لڑرہے ہیں نہ کہ کسی اضافی مراعات کی طلب میں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ دیگر ہزاروں کیسز بھی سروس ٹربیونل سمیت گلگت بلتستان کے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان میں سے ایک معروف فیصلہ 23 ستمبر 2020 کو 14 اساتذہ کرام کے حق میں سپریم اپیلیٹ کورٹ کے معزز ججز نے صادر فرمایا جس میں انہیں پروفیشنل ڈگری کی پاسنگ ڈیٹ سے اگلے سکیل میں ترقی کے واضح احکامات بھی موجود تھے۔ اسی بنا پر ان اساتذہ کی پروموشنز ہوئیں۔
گلگت بلتستان کے یہ چار ہزار سے زائد ای ایس ٹیز دراصل محکمہ تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے کہ تحریر کی ابتدا میں ذکر ہوا یہ تمام اساتذہ اپنے اپنے ایریاز میں اپنی ذمہ داریوں سے بھی بڑھ کر خدما ت سرانجام دے رہے ہیں۔ تمام ہائی سکولز اور ہائیر سیکنڈری سکولز اگر بہترین نتائج دے رہے ہیں تو اس میں مرکزی کردار انہی ای ایس ٹیز کا ہے۔مختلف مضامین میں ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے اساتذہ سبجیکٹ سپیشلسٹ کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ آئی ٹی میں گریجویشن اور ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے ای ایس ٹیز اپنے اپنے سکولز میں کمپیوٹر لیبارٹریز کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں اس طرح جن سکولوں میں آئی ٹی انسٹرکٹرز دستیاب نہیں وہاں یہ ای ایس ٹیز ان کی کمی محسوس ہونے نہیں دے رہے ہیں۔ ہارڈ ایریاز میں دنیا کی تمام آسائشوں سے قطع تعلق کرکے یہی ای ایس ٹیز پوری تندہی سے اپنی خدما ت سرانجام دے رہے ہیں۔ بعض سکولوں میں ڈی ڈی او شپ کے امور چلانے میں یہی ای ایس ٹیز کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سارے سکولوں میں کلرکوں کا کام بھی انہی ای ایس ٹیز سے لیا جارہا ہے۔ لہٰذا ان تمام حقائق کی بنیاد پر ای ایس ٹیز محض یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ ہمیں اپنا جائز مقام دلایا جائے۔ حکومت کے لئے ان اساتذہ کے مطالبات منظور کرکے انہیں ذہنی کرب سے نجات دلانا کوئی مشکل کام بھی نہیں۔ اور یہ ضروری بھی ہے کہ اساتذہ کے جائز مطالبات کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ وہ اپنی پوری توجہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر مرکوز کرسکیں۔اساتذہ جب اپنے سکیل اور مالیاتی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں تو پوری یکسوئی سے بچوں پر توجہ دینا کیسے ممکن ہے؟
مزید یہ کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک اپر ڈویژن کلرک بھی سکیل 14 میں کام کررہا ہوتا ہے۔ لیب اسسٹنٹس کو سکیل 14 دیا جارہا ہے ۔ دیگر محکموں میں بھی گریڈ 9 اور گریڈ 7 کی پوسٹوں کو اپ گریڈ کرکے سکیل 14 سے نوازا جارہا ہے۔ یہ تمام امور نہایت مستحسن اقدامات ہیں۔ جب دیگر تمام ملازمین کو اپ گریڈیشن کا حق حاصل ہے تو صرف ای ایس ٹیز کو دو دو دہائیوں تک ایک ہی سکیل میں روکے رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟ پچھلے مہینوں میں ممبر صوبائی اسمبلی جناب اکبر رجائی صاحب نے اسمبلی میں ایک توجہ دلاؤ قرارداد بھی جمع کرائی تھی جس میں ای ایس ٹیز کی اپ گریڈیشن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ نہیں معلوم اس قرارداد کا سفر کہاں تک پہنچ کے رکا ہوا ہے۔ اسمبلی سے اس قرارداد کو منظور کروا کر باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے تمام ای ایس ٹیز کو اگلے سکیلز سے نوازا گیا تو یہ قوم کے ان محسنوں پر بڑا احسان شمار ہوگا۔ لیکن یہاں صوبائی حکومت کی ایک ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ وفاق سے پوسٹوں کی کریشن پر توجہ مرکوز کریں تاکہ ان ایشوز کے ساتھ نبرد آزما ہوسکیں۔ ورنہ محض محکمہ تعلیم پر پریشر لگا کے شاید کچھ بھی پیشرفت ممکن نہ ہو۔ کیونکہ محکمے کے پاس اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔
آخری بات گلگت بلتستان کے ای ایس ٹیز بھی منظم ہورہے ہیں۔ مختلف جگہوں سے احتجاج وغیرہ کی بھی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ امید ہے محکمہ ان ایس ٹیز کی خدمات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ان کی محرومیوں کو جلد از جلد دور کریں گے تاکہ قوم کے محسنوں کی عزت افزائی ہو اور یہ طبقہ گلگت بلتستان میں تعلیمی ترقی میں پہلے سے بھی بڑھ کر اپنا کردار ادا کرسکیں۔
Urdu news Pakistan, deprivation of elementary school teachers