“اگر مذاکرات ہونگے تو صرف افغان عبوری حکومت کے مابین ہونگے ،کسی بھی دہشت گرد گروہ یا جھتے سے بات چیت نہیں ہو گی ارمی چیف
“اگر مذاکرات ہونگے تو صرف افغان عبوری حکومت کے مابین ہونگے ،کسی بھی دہشت گرد گروہ یا جھتے سے بات چیت نہیں ہو گی ارمی چیف
مذاکرات، پروفیسر قیصر عباس!
urdu news, “If there are talks, they will only be between the Afghan interim government, there will be no talks with any terrorist group or group.
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیرنے پشاور میں گرینڈجرگہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے “اگر مذاکرات ہونگے تو صرف افغان عبوری حکومت کے مابین ہونگے ،کسی بھی دہشت گرد گروہ یا جھتے سے بات چیت نہیں ہو گی،اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے جنہوں نے اسے دہشتگردی کی بھینٹ چڑھایاان کوجواب دینا پڑے گا۔”ان کا مزید کہنا تھا “افغان مہاجرین کو پاکستان میں پاکستانی قوانین کے مطابق رہنا ہوگا،پاکستان کے عوام ایک ہیں ، جو لوگ امن کو برباد کرنا چاہتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہیں،پاکستانی فوج شہدا کی فوج ہے جس کا نعرہ ہے ایمان ، تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ ۔”ان کا کہنا تھا “پاکستان کلمے کی بنیاد پر بننے والی دوسری ریاست ہے،دنیا کی کوئی ریاست پاکستان کا کچھ نہیں کر سکتی۔”افغان حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا”کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور بھی ہوسکتا ہے؟پاکستان میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے،یہ خوارج کون سی شریعت لانا چاہتے ہیں؟پاکستان میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں ہے،میں اور بہادر فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ خون کے آخری قطرے تک لڑے گی،ماضی میں دہشت گردی میں اضافہ دہشت گردی کی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی بےسود کوشش ہے،دہشتگردوں کے پاس ریاست کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے اور اگر وہ اپنی غلط راہ پر گامزن رہے تو انہیں ختم کردیا جائے گا،”ان کا مزید کہنا تھا”ہم اللہ کہ راستے میں جہاد کر رہے ہیں اور کامیابی ہماری ہوگی ،پاکستانی فوج کا نصب العین شہید یا غازی ہے،پاکستان پرامن اور مستحکم ماحول کو ممکن بنانے کے لئے دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کر رہا ہے،پاکستان میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں ہے،
موت کو کنواں، شاہراہ قراقرم کے بڑھتے حادثات، عوام کا رد عمل
افغان شہریوں کا پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونا علاقائی امن ،استحکام کے لئے نقصان دہ اور عبوری افغان حکومت کی جانب سے دوحہ امن معاہدے سے انحراف ہے،پاکستان کو کالعدم تنظمیوں کے لئے دستیاب پناہ گاہوں اور افغان سرزمین پر کاروائیوں کی چھوٹ پر تحفظات ہیں،پاکستان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم۔کرنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔”آرمی چیف نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف دشمن قوتوں کے پراپیگنڈے سے قانون کے مطابق نبٹا جائے گا۔”انہوں نے پاک فوج،ایف سی،لیویز،خاصہ داروں اور پولیس کے بہادر قبائلیوں,افسروں اور جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ شہدا کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور پاکستان میں مکمل امن واپس آئے گا۔”سپہ سالار کی دہشت گردی کے حوالے سے دوٹوک پالیس قابل تحسین ہے ۔ہمارے پالیسی ساز ادارے اس مغالطے کا شکار رہے ہیں کہ سانپ کو دودھ پلاتے رہوتو ڈسنے سے باز آجائے گا ۔ہم نے افغان مہاجرین کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کی مگر اس کے بدلے ہمیں کیا ملا سوائے بم دھماکوں اور مذہبی انتہا پسندی کے؟دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ہماری فورسز کے ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے نہ صرف جوان بلکہ ہمارے بچوں کو بےدردی سے قتل کیا گیا سانخہ APSکی مثال ہمارے سامنے ہے مگر ہم نے دوٹوک فیصلہ کرنے کی بجائے دشمن کے بچوں کو پڑھانے پہ زور دیا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا بے رحم دشمن اور دلیر ہوگیا۔ہمارا مالی نقصان کیا گیا ملک میں افراتفری کی کفیت کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے انکار دیا جس کی وجہ سے ہمیں ناقابل تلافی معاشی نقصان ہوا۔ہمارا ملک دہشت گردی کی ایسی لپیٹ میں آگیا جس کی وجہ سے نہ ہمارے عبادت خانے محفوظ رہے اور نہ ہی ہمارے سکیورٹی ادارے ۔ہم ایک اور غلط فہمی کا شکار بھی رہے امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑتے رہے جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں جب دو بڑی طاقتوں کا آمنا سامنا ہوا تو ہم نے غیر جانبدار رہنے کی بجائے امریکی بلاک میں جانے کو ترجیح دی مگر امریکہ نے ہمیں استعمال کرتے ہوئے پہلے تو روس کی فیڈریشن کو ختم کروایا اور پھر بعد میں New World Orderکا نظام متعارف کروا کے مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔جنرل مشرف کے دور حکومت میں ہم” پتھر کے زمانے “میں جانے سے ڈر گئے اور دوبارہ امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی قرار پائے اگرچہ فرنٹ لائن اتحادی ہم تھے جس کی وجہ سے دہشتگردوں نے ہماری املاک ہماری جانوں کو نقصان پہنچایا مگر انعام و اکرام کے مستحق ہمارا ہمسایہ ملک ٹھہرا۔ہم نے دہشت گردی کے حوالے سے ایک مستحکم اور دوٹوک موقف اپنانے کی بجائے” اچھے طالبان اور برے طالبان “والا موقف اپنایا جس کی وجہ سے ہمیں مزید نقصان اٹھانا پڑا۔ہر ملک اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دیتا مگر ہم نے ہمیشہ غیروں کے مفادات کاتحفظ کیا ہے ۔یہ بات خوش آئند ہے کہ ایک اہم ترین ادارے کے سربراہ کی طرف سے ارادہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ایسے” نان سٹیٹ ایکٹرز “سے مذاکرات نہیں بلکہ انہیں سختی سے کچل دیا جائے گا۔
urdu news, “If there are talks, they will only be between the Afghan interim government, there will be no talks with any terrorist group or group.