دوسری باری پھر زرداری! پروفیسر قیصر عباس
دوسری باری پھر زرداری! پروفیسر قیصر عباس
کیا عمدہ کھیلے ہیں جناب آصف علی زرداری صاحب قومی اسمبلی میں اگرچہ صرف 54 نشتیں حاصل کی ان 54 نشستوں میں سے زیادہ نشستیں سندھ سے حاصل کی ہیں جب کہ باقی ماندہ دو سے تین پنجاب میں ملتان سے جیتیں ہیں مگر پنجاب کی گورنر شپ ٫ بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ سینیٹ کی چیئرمین شپ اور سب سے بڑا آئینی عہدہ یعنی صدارت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔آصف علی زرداری کی دوسری بار صدر بننے کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہو گئی ہے ۔اک خواب بہرحال ابھی باقی ہے وہ اپنی زندگی میں اپنے برخوردار جناب بلاول بھٹو زرداری کو ایوان وزیراعظم کا مکین دیکھنا چاہتے ہیں۔اگر آصف علی زرداری دوسری دفعہ صدر پاکستان بن سکتے ہیں تو یہ بعید نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم نہ بن پائیں ۔9 مارچ 2024ء کو جناب آصف علی زرداری دوسری بار صدر پاکستان منتخب ہوگئے ہیں۔آصف علی زرداری ملک عزیز کے چودھویں صدر منتخب ہوئے ہیں یاد رہے اس سے پہلے بھی 2008ء سے 2013 ء تک آصف علی زرداری صدر رہے ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلے سویلین صدر ہیں جنہوں نے بطور صدر اپنی مدت پوری کی ۔موجودہ صدارتی انتخابات میں آصف علی زرداری کا مقابلہ پشتون قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کے ساتھ تھا جو بلوچستان کے پشتون بلٹ سے تعلق رکھتے ہیں یاد رہے محمود خان اچکزئی بلوچستان سے قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے ہیں ۔محمود خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ رکھتے ہیں اور اسٹبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کے سخت ترین ناقد ہیں۔آصف علی زرداری پیپلز پارٹی ٫مسلم لیگ نون اور اتحادی جماعتوں کے نامزد کردہ صدارتی امیدوار تھے جب کہ محمود خان اچکزئی کو تحریک انصاف موجودہ “سنی اتحاد کونسل”کی حمایت حاصل تھی ۔صدارتی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مخصوص نشستوں پر بھی اپنا فیصلہ سنایا اور جن مخصوص نشستوں کی سنی اتحاد کونسل دعویٰ دار تھی وہ دیگر جماعتوں میں تقسیم کردیں جس کی وجہ سے حکومتی اتحاد کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوگیا اور اس کا فائدہ جناب آصف علی زرداری کو ہوا۔آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ سے 255ووٹ حاصل کئے جب کہ محمود خان اچکزئی 119ووٹ حاصل کر سکے۔بلوچستان اسمبلی کے 62ارکان میں سے 47ارکان نے آصف علی زرداری کو ووٹ دیا جب کہ جمیعت علماء اسلام نے صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور دونوں میں سے کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی اپنے آبائی صوبے کی اسمبلی سے ایک ووٹ بھی حاصل نہ کر سکے۔پنجاب اسمبلی کے 362 ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں سے چھ ووٹ مسترد ہوئے۔اس اسمبلی سے 246ووٹ آصف علی زرداری نے حاصل کئے جب کہ محمود خان اچکزئی کو 100ووٹ ملے یہاں اک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تمام صوبوں کی اسمبلیوں کو بلوچستان کی اسمبلی کے برابر سمجھا جاتا ہے بلوچستان کی اسمبلی کے 65ارکان ہیں اس لئے پنجاب ٫کے پی کے ٫سندھ کی اسمبلیوں کو بھی 65ارکان ہی تصور کیا جاتا ہے۔سندھ اسمبلی میں 160ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں سے 151ووٹ آصف علی زرداری نے ووٹ حاصل کئے جب کہ محمود خان اچکزئی کو صرف 9ووٹ ملے۔خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں 118ارکان پر مشتمل تھی جن میں سے 109 ووٹ کاسٹ ہوئے ۔محمود خان 91 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جب کہ آصف علی زرداری کو صرف 17ووٹ ملے اس اسمبلی میں بھی جمعیت علماء اسلام کے 9 اراکین نے صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔صدارتی انتخاب کا الیکٹورل کالج 1185ارکان پر مشتمل تھا جن میں92, نشستیں خالی ہیں ۔ خالی نشستوں کی وجوہات پر بات کی جائے تو کچھ اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی دونوں نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں اور قانون کے مطابق وہ اراکین جو دو نشستوں یا اس سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوتے ہیں یہ اراکین صرف ایک نشست ہی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اس لئے خالی نشستوں پر اب ضمنی انتخاب ہوگا جس کی وجہ سے یہ نشتیں صدارتی انتخاب میں خالی قرار دی گئی ہیں۔صدارتی انتخاب میں الیکٹورل کالج کے کل 1044ووٹ کاسٹ ہوئے جب 9ووٹ مسترد ہوئے.درست ووٹوں کی تعداد 1035رہی۔آصف علی زرداری نے الیکٹورل کالج کے 410.777ووٹ حاصل کئے جب کہ محمود خان خان اچکزئی 180.34ووٹ حاصل کئے ۔یوں آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے صدر مملکت بننے میں کامیاب ہوئے۔محمود خان اچکزئی نے آصف علی زرداری کو صدر پاکستان بننے پر مبارکباد دی اور اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ پہلے صدارتی انتخابات ہیں جن میں پیسہ نہیں چلا انہوں نے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں ووٹ کاسٹ کیا لیکن بلوچستان کے اراکین اسمبلی سے شکوہ ضرور کیا اور کہا کہ “بلوچستان اسمبلی سے کم ازکم ایک ووٹ تو ملنا چاہیے تھا “ویسے محمود خان اچکزئی کا یہ گلہ بنتا بھی ہے کیونکہ یہ محمود خان اچکزئی کی آبائی اسمبلی ہے مگر وہ وہاں سے کوئی ووٹ حاصل نہ کر سکے ۔اختر مینگل جو کہ بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں انہوں نے محمود خان اچکزئی کو ووٹ کاسٹ کیا ۔مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمیعت علماء اسلام نے نہ آصف علی زرداری کو ووٹ دیا اور نہ ہی محمود خان اچکزئی کو جب کہ جماعت اسلامی نے بھی اس صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور دونوں میں سے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کم نشستوں کے باوجود آصف علی زرداری ایک بار پھر صدر مملکت بننے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستانی سیاست کو جس طرح آصف علی زرداری سمجھتے ہیں وہ کم ہی سیاست دان سمجھتے ہیں ۔کم نشستوں کے باوجود اچھی بارگینگ کے ساتھ آئینی عہدوں کا حصول آصف علی زرداری کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔کیونکہ اس نظام میں آصف علی زرداری جیسے سیاست دان بہتر انداز میں سیاسی حکمت عملی اختیار کر کے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔
پروفیسر قیصر عباس!
urdu news, column in urdu , Zardari again