پیغام ، پروفیسر قیصر عباس
پیغام ، پروفیسر قیصر عباس
8فروری کے عام انتخابات کے بعد پاکستان کی سولہویں منتخب قومی اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھا لیا ہے۔اراکین اسمبلی سے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے حلف لیا۔حلف برادری کے بعد اسمبلی کا اجلاس یکم مارچ بروز جمعہ تک ملتوی کر دیا ۔جمعہ کے روز سنی اتحاد کونسل کی جانب سے ملک عامر ڈوگر اسپیکر شپ کے امیدوار تھے جب کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی جانب سے سردار ایاز صادق سپیکر کے امیدوار بنے ۔انتخاب ہوا تو ایاز صادق نے 199جب کہ سنی اتحاد کونسل کے عامر ڈوگر 99ووٹ لے سکے۔یاد رہے سردار ایاز صادق سابق چئیرمن تحریک انصاف عمران خان کے بہت قریبی دوست رہے ہیں اور لاہور کے مشہور ایچیسن کالج میں کلاس فیلو بھی رہ چکے ہیں۔1997ء کے انتخابات میں جب عمران خان نے پہلی دفعہ لاہور ” گڑی شاہو” سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تو ایاز صادق نے اسی حلقے سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا مگر عمران خان اور ایاز صادق دونوں ہی یہ الیکشن ہار گئے۔اس کے بعد دونوں دوستوں کے راستے جدا ہو گئے ۔2002کے عام انتخابات میں دونوں دوست لاہور سے اسی حلقے سے ایک دوسرے کے مدمقابل آ کھڑے ہوئے ایاز صادق مسلم لیگ نون کے امیدوار تھےاور انہوں نے لاہور سے عمران خان کو شکست دی اور اسمبلی میں پہنچ گئے جب کہ عمران بھی میانوالی سے جیت کر رکن قومی اسمبلی بن گئے۔2013کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر سے عمران خان اور سردار ایاز صادق مد مقابل تھے اس انتخاب میں ایاز صادق جیت گئے اور سپیکر قومی اسمبلی بن گئے یاد رہے 2013کے انتخابات میں عمران خان نے جن چار حلقوں میں دھاندلی کا الزام لگایا ان میں یہ حلقہ بھی شامل تھا جہاں سے ایاز صادق نے عمران خان کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا اور خان صاحب کو شکست دی تھی۔دوسری طرف ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفیٰ بن گئے ہیں جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے اور یہ سندھ سے منتخب ہو کر آئے ہیں۔سنی اتحاد کونسل کی طرف سے جنید اکبر نے ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب لڑا مگر ہار گئے۔اتوار والے دن وزیراعظم پاکستان کا انتخاب ہوا۔مسلم نون اور پیپلز پارٹی و اتحادی جماعتوں کی طرف سے شہباز شریف وزیراعظم کے امیدوار وار ہیں جب کہ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے عمر ایوب وزیراعظم کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے وزارت اعظمیٰ کے لئے 201ووٹ حاصل کئے ہیں جب کہ عمر ایوب 92ووٹ حاصل کر سکے ۔یوں شہباز شریف ملک کے چوبیسویں وزیر اعظم بن گئے ہیں۔نگران حکومت سے پہلے بھی میاں شہباز شریف 16ماہ کے لئے وزیر اعظم رہ چکے تھے۔جب کہ میاں شہباز شریف تین دفعہ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔سب سے دلچسپ امر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے اس سارے پارلیمانی پراسسز کا بائیکاٹ کیا اور کسی بھی جماعت کو ووٹ نہ دیا۔نو منتخب قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس کافی ہنگامہ خیز رہا ہر طرف سے نعرے بازی ہوتی رہی ۔سنی اتحاد کونسل کے اراکین مطلب تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آذاد منتخب اراکین قومی اسمبلی”چور چور “کے نعرے لگاتے رہے ۔عمران خان کی تصاویر اٹھائے ہوئے نعررے بازی کرتے رہے جب پیپلز پارٹی والے” اگلی باری پھر زرداری” والا مشہور نعرہ لگاتے رہے ۔جب میاں نواز شریف صاحب ایوان میں آئے تو مسلم لیگ نون کے اراکین قومی اسمبلی نے ” شیر آیا شیر آیا”کے نعرے لگائے۔دونوں طرف سے تقاریر ہوئی ایک دوسرے پر تنقید ہوئی سنی اتحاد کونسل نے اپنی مخصوص نشستوں کا تقاضا کیا جو ابھی تک انہیں الاٹ نہیں کی گئی اور انتخابات میں بدترین دھاندلی کے الزامات لگائے ۔حتی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے بنچوں کی طرف بیٹھے ہوئے ارکان کو “اجنبی “اور ” فارم 47والے” ارکان کہا گیا۔مسلم لیگ نون کی طرف سے عمران خان کو “گھڑی چور “کہا گیا۔یوں پہلے ہی اجلاس میں مستقبل کی منظر نگاری کی جا سکتی ہے کہ یہ اسمبلی ایسے ہی چلنی ہے ۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اسمبلی میں چار سابق وزراء اعظم اور ایک سابق صدر (میاں نواز شریف ٫میاں شہباز شریف ٫سید یوسف رضا گیلانی ٫راجہ پرویز اشرف ٫آصف علی زرداری )موجود تھے جنہوں نے نئی قومی اسمبلی کا بطور رکن حلف اٹھایا۔اب نئی صورت حال جو سامنے آئی ہے وہ صدارتی انتخابات ہیں جن کا انعقاد 9مارچ کو ہوگا اس انتخاب میں مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کے امیدوار آصف علی زرداری کی حمایت کریں گے جب کہ معاہدہ کے مطابق پیپلز پارٹی وزیراعظم کے لئے مسلم لیگ نون کے وزارت اعظمیٰ کے امیدوار میاں شہباز شریف کی حمایت کی ہے ۔مگر سنی اتحاد کونسل نے صدر کے انتخاب کے لئے محمود خان اچکزئی کو بطور صدراتی امیدوار نامزد کردیا ہے ۔ضروری نہیں کہ محمود خان اچکزئی یہ انتخاب جیت جائیں لیکن عمران خان جو پیغام دینا اور جن” حلقوں”کو دیناچاہتے ہیں وہ دے چکے ہیں۔اس سے پہلے خیبرپختونخوا میں علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ سونپ کر بھی یہ پیغام دیا گیا تھا یاد رہے علی امین 9مئی کے مقدمات میں مطلوب تھے اس کے باوجود انہیں وزیر اعلیٰ کے- پی- کے بنا دیا گیا ہے ۔پنجاب میں میاں اسلم اقبال بھی 9 مئی کے مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھے وزارتِ اعلیٰ کے لئے انہیں نامزد کیا گیا تھا مگر وہ حلف بھی نہ اٹھا سکے اس کے بعد سنی اتحاد کونسل نے رانا آفتاب کو اپنا وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنایا۔اب محمود خان اچکزئی کے نظریات اور خیالات سے کون واقف نہیں ہے کہ ان کے اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے کیا نظریات ہیں ؟ ان کا واحد” طرہ امتیاز”صرف یہی ہے کہ وہ ہمیشہ “انٹی اسٹبلشمنٹ”صرف سمجھے نہیں جاتے بلکہ ہر دور میں اس جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں جو” مقتدرہ” کی مخالف صف میں کھڑی ہو۔2018ءمیں وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی صف میں کھڑے تھے کیونکہ تاثر یہ تھا کہ “مقتدرہ” تحریک انصاف کی حمایت کر رہی ہے ۔اب تاثر یہ ہے کہ” مقتدرہ” مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے اس لئے محمود خان اچکزئی تحریک انصاف کی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔محمود خان اچکزئی کا سنی اتحاد کونسل کی طرف سے صدارتی انتخاب میں بطور امیدوار حصہ لینا اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اس دفعہ مفاہمت کی سیاست نہیں چلنے والی بلکہ قومی اسبملی میں اک نئی طرز کی اپوزیشن ملے گی جو کہ مفاہمت کی بجائے جارحانہ رویہ اپنانے گی اس حکمت عملی کو خان صاحب کی بھر پور حمایت حاصل ہے کیونکہ محمود خان اچکزئی کو صدارتی امیدوار بنا کے خان صاحب نے مفاہمت کی بجائے جارحانہ سیاست کا پیغام دے دیا ہے۔
شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
urdu news, column in urdu, urdu column, message